سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(309) خاوند کے گم ہو جانے پر عدت؟

  • 14384
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1580

سوال

(309) خاوند کے گم ہو جانے پر عدت؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

عرض ہے کہ میرا خاوند عرصہ ۸ سال سے غائب ہے وہ نشہ کرتا تھا ، اس کا کوئی پتہ نہیں کہ وہ زندہ ہے  یا مر گیا ہے اس کے وارثوں سے بھی پتہ کر وایا وہ کہتے ہیں کہ اس کا کوئی پتہ نہیں۔میرے ۳ چھوٹے بچے ہیں ۔ بچوں کی پرورش کا مسئلہ  ہے  اس لئے میں نکاح کرنا چاہتی ہوں  لہٰذا  مجھے شرعی فتویٰ چاہیے ؟(سائلہ :شمیم اختر بشیر احمد بٹ بھٹو کالونی گلی نمبر ۸کواٹر اے جوئیانوالہ موڑ ضلع شیخوپورہ بذریعہ محمد الیاس ولد بشیر  احمد مذکور )


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 بشرط صحت سوال صورت مسئولہ سائلہ مسمات شمیم اختر دختر بشیر  احمد بٹ چار ماہ دس دن کی عدت گزار کر اپنے مستقبل کا فیصلہ کر سکتی ہے۔جیساکہ:

۱: حضرت عمر  فاروق  رضی اللہ عنہ کا  فیصلہ  حسب ذیل ہے ۔

(وَعَنْ عُمَرَ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - فِي امْرَأَةِ الْمَفْقُودِ تَتَرَبَّصُ أَرْبَعَ سِنِينَ ثُمَّ تَعْتَدُّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا. أَخْرَجَهُ مَالِكٌ وَالشَّافِعِيُّ) (۲: سبل السلام شرح بلو غ المرام:جلد ۳ ص۲۰۷،۲۰۸)

”حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا جس عورت کا شوہر گم ہوجائے (اور اس کا کچھ پتہ نہ چلے کہ زندہ ہے یا مر گیا اورکہاں ہے ) تو ایسی عورت اس کا چار برس انتظار کرے  چار برس گزرنے پر پھر عدت وفات چار ماہ دس دن پورے کرے ،پھر جہاں چاہے  شریعت  کے مطابق اپنا نکاح کرا لے۔

(وَلَهُ طُرُقٌ أُخْرَى. وَفِيهِ قِصَّةٌ أَخْرَجَهَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ بِسَنَدِهِ فِي الْفَقِيدِ الَّذِي فُقِدَ قَالَ دَخَلْت الشِّعْبَ فَاسْتَهْوَتْنِي الْجِنُّ فَمَكَثْت أَرْبَعَ سِنِينَ فَأَتَتْ امْرَأَتِي عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - فَأَمَرَهَا أَنْ تَرَبَّصَ أَرْبَعَ سِنِينَ مِنْ حِينِ رَفَعَتْ أَمْرَهَا إلَيْهِ ثُمَّ دَعَا وَلِيَّهُ أَيْ وَلِيَّ الْفَقِيدِ فَطَلَّقَهَا ثُمَّ أَمَرَهَا أَنْ تَعْتَدَّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا ثُمَّ جِئْت بَعْدَمَا تَزَوَّجَتْ فَخَيَّرَنِي عُمَرُ بَيْنَهَا وَبَيْنَ الصَّدَاقِ الَّذِي أَصْدَقْتهَا) (۳: سبل السلام و بلوغ المرام ج۳ ص۲۰۸)

ایک آدمی کہتا  ہے کہ  مجھ کو جن نے پاگل بنا  کر  چار برس روک رکھا ہے ۔ اتنے  میں میری بیوی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئی اور کہا کہ میرے خاوند کو گم ہوئے چار برس ہوگئے  تو حضرت عمر نے فرمایا کہ چار برس انتظار کے بعد چار ماہ دس دن کی عدت ،یعنی بیوگی کی عدت گزار کر اپنا نکاح کر سکتی ہے ۔میں جب رہا ہو کر واپس آیا تو وہ نکاح کر چکی تھی تو حضرت عمر نے مجھے بعد والے شوہر کا مہر واپس کر کے بیوی کو لوٹا  لینے کا اختیار دے دیا ۔ اس مسئلہ میں اختلاف ہے کہ چار برس کی انتظار  حاکم کے فیصلہ کے بعد شروع ہوگی یا پہلی مدت چار برس ہی کافی ہے تو بعض مفتیوں کے نزدیک حاکم کے فیصلہ  سے پہلے اگر شوہر  کی گم شدگی پر چار برس کی مدت پوری ہوچکی ہو تو پھر مزید چار برس کی انتظار کی ضرورت نہیں ۔فیصلے  کے بعد صرف چاار ماہ دس دن ایام بیوگی کی عدت گزارنی ہی کافی ہے ۔ موطا امام مالک میں ہے :

(عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ قَالَ: «أَيُّمَا امْرَأَةٍ فَقَدَتْ زَوْجَهَا فَلَمْ تَدْرِ أَيْنَ هُوَ؟ فَإِنَّهَا تَنْتَظِرُ أَرْبَعَ سِنِينَ، ثُمَّ تَعْتَدُّ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَعَشْرًا ثُمَّ تَحِلُّ»(۱: فتاویٰ  اھل حدیث ج ۲ص ۵۳۸)

حضرت سعید بن مسیب سے  روایت ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کہا ہے  کہ جس عورت کا خاوند گم ہو جائے  اور معلوم نہ ہو کہ وہ کہاں ہے  تو جس روز سے اس کو خبر بند ہوئی  چار برس تک عورت انتظار کرے ،بعد چار برس کے چار مہینے دس دن عدت گزار کر  چاہے تو دوسرا نکاح کرے ۔اگر گم ہوئے  چار سال یا اس سے زیادہ عرصہ ہو چکاہو تو چارسال عدت گزارنے کی ضرورت نہیں۔(حافظ محمد عبداللہ روپڑی فتاویٰ روپڑیہ (اھلحدیث ) ج ۲ ص ۵۳۸)

(وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: «أَنَّ النَّبِيَّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فِي الرَّجُلِ لَا يَجِدُ مَا يُنْفِقُ عَلَى امْرَأَتِهِ قَالَ: يُفَرَّقُ بَيْنَهُمَا») (۲: رواہ الدار قطنی نیل الاوطار ج ۶ص ۳۲۱)

باب اثبات الفرقۃ اذا تعذرت انفقۃ: حضرت رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جو شوہر اپنی بیوی کو نان و نفقہ ،یعنی خرچ مہیا کرنے سے عاجز ہو تو ان کے درمیان تفریق ،یعنی جدائی کر وادی جائے۔

ان احادیث اور فتاویٰ کے مطابق مسمات شمیم اختر چار ماہ دس دن کی عدت گزار کر اپنے مستقبل کا فیصلہ کر سکتی ہے۔کیونکہ بشرط صحت سوال اس کے خاوند کو گم ہوئے آٹھ برس ہوچکے ہیں گویا وہ  آج مرچکا ہے ،اب بیوگی کی عدت گزارنی ضروری ہے یہ اس بی بی کی بنیادی ضرورت ہے مزید یہ کہ جب صرف خرچ مہیا نہ کرنے  پر جب حدیث کے مطابق تفریق جائز ہے تو اس کا شوہر تو آٹھ برس سے گم چلا آرہا ہے۔تو یہ بی بی اور زیادہ مستحقہ ہے ۔مجاز اتھارٹی سے توثیق اور اجازت کے بعد اپنے مستقبل کا فیصلہ کر سکتی ہے جیسا کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ  اور حافظ عبدالقادر روپڑی کا فتویٰ ہے ۔مفتی  کسی قانونی سقم  اور عدالتی کاروائی کا ہرگز  ذمہ دار نہ ہوگا

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص754

محدث فتویٰ

تبصرے