سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(275) عدالتی نکاح شریعت کے حوالہ سے

  • 14375
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1411

سوال

(275) عدالتی نکاح شریعت کے حوالہ سے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے کے بارے میں قرآن و سنت کی روشنی میں میری بچی بعمر تقریباً ۱۸ سال رخسانہ عرف ریحانہ ولد نذیر احمد کو منظور احمد ولد نواب دین  نے اغوا کر لیا ہے ، جو کہ بڑا اثر رسوخ والا ہے اور اس نے عدالت میں جا کر عدالتی نکاح بھی کر لیا ہے جب کہ میں اس چیز کو بہت برا سمجھتا ہوں ۔لہٰذا قرآن و سنت کی روشنی میں بتائیں  کہ یہ نکاح جائز ہے کہ نہیں ۔ کیونکہ میں اپنی بچی کا نکاح کسی اور جگہ کرنا چاہتا ہوں ۔یعنی یہ نکاح میری مرضی کے خلاف  اور اجازت کے بغیر ہوا ہے کیا ازروئے شریعت باپ ، یعنی ولی کی اجازت کے بغیر کیا گیا نکاح جائز ہے یانہیں اور لڑکی خود اس نکاح پر رضا مند نہیں ۔(سائل نزیر احمد ولد محمد شریف موچی چک نمبر ۱۰ بولا گڑھی ڈاکخانہ پتوکی  تحصیل چونیاں  ضلع قصور ) 


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صورت مسئولہ میں بشرط صحت سوال واضح ہو کہ یہ نکاح ازروئے شرع باطل ہے ،یعنی منعقد ہی نہیں ہوا۔

صحیح البخاری (بَابُ مَنْ قَالَ: لاَ نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍِّقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {فَلاَ تَعْضُلُوهُنَّ} [البقرة: 232] فَدَخَلَ فِيهِ الثَّيِّبُ، وَكَذَلِكَ البِكْرُ، وَقَالَ: {وَلاَ تُنْكِحُوا المُشْرِكِينَ حَتَّى يُؤْمِنُوا} [البقرة: 221] وَقَالَ: {وَأَنْكِحُوا الأَيَامَى مِنْكُمْ} [النور: 32])

کہ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح منعقد نہیں ہوتا  ، یعنی صحیح نہیں ہوتا ۔کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جب تم عورتوں کو رجعی طلاق دو اور وہ طلاق کی عدت پوری کر لیں تو بعد ازاں ان کو ان کے سابقہ شوہروں کے ساتھ دوبارہ نکاح کرنے سے مت روکو ۔ یہ حکم اپنے عموم میں بیوہ اور کنواری دونوں کو شامل ہے یعنی دونوں نکاح کے معاملہ میں اپنے ولی کی اجازت کی پابند ہیں ۔ نیز فرمایا  : نکاح نہ کرو اپنی عورتوں کا مشرکوں کے ساتھ جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں او ر فرمایا بیوہ اور مجرد لوگوں کا  نکاح کر دیا کرو ۔چونکہ ان تینوں آیات کریمہ میں ولیوں کو خطاب کیاگیا ہے لہٰذا اس خطاب سے امام بخاری نے دلیل پکڑی ہے کہ نکاح کے صحیح اور شرعی ہونے کے لئے ولی کی اجازت لازم اور بنیادی شرط ہے ورنہ اللہ تعالیٰ ولیوں کو پابندی لگانے سے نہ روکتا پس معلوم ہوا کہ صحت نکاح کے لئے ولی اقرب (باپ) کی اجازت لازمی شرط ہے ۔ لہٰذا جب ولی (باپ) زندہ ہے تو اس کی بلا جبر واکراہ اجازت کے بغیر یہ عدالتی نکاح شرعاً باطل ہے  اور عدالت کو شرعاً یہ حق حاصل نہ ہے کہ مغویہ لڑکی کے ساتھ نکاح پڑھا دے اب احادیث صحیحہ مرفوعہ ملاحظہ فرمائیے ۔

(وعن أبي موسى أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " لا نكاح إلا بولي ".)(۱: صحیح البخاری :ج۲ص ۷۶۹)

حضرت ابو موسیٰ اشعری  رضی اللہ عنہ  کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ولی کی اجازت  بغیر نکاح نہیں ہوتا ۔اس حدیث کو امام ابو داؤد ، امام ترمذی وغیرہ نے روایت کیا ہے  ۔امام ابن حبان اور امام حاکم نے اس کو صحیح  کہا ہے ۔

(وعن عائشة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " أيما امرأة نكحت بغير إذن وليها فنكاحها باطل، فنكاحها باطل، فنكاحها باطل، فإن دخل بها فلها المهر بما استحل من فرجها، فإن اشتجروا (3) فالسلطان ولي من لا ولي له "رواه أحمد، وأبو داود، وابن ماجه، والترمذي، وقال: حديث حسن.)

ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو عورت  اپنے شرعی ولی باپ وغیرہ کی اجازت کے بغیر نکاح کرے گی تو اس کا یہ نکاح باطل ہے باطل ہے ،باطل ہے اور اس غیر شرعی  نکاح کے بعد اگر جماع کیا ہو تو اس کو مہر دینا پڑے گا ۔ جب دو ولیوں کے درمین تنازعہ ہو تو پھر سلطان ولی ہوتا ہے ۔یاد رکھئے  باپ کے ہوتے ہوئے دوسرا آدمی کسی  کا مرشد ولی نہیں بن سکتا ۔پس ان آیات سے اور احادیث صحیحہ سے ثابت ہوا کہ مذکورہ بالا عدالتی نکاح چونکہ لڑکی کے باپ اور  خود اس کی مرضی اور اجازت کے بغیر کیا گیا ہے لہٰذا یہ نکاح بلا شبہ باطل اور غی شرعی ہے۔

یہ سوال بشرط صحت سوال تحریر کیا گیا ہے اور یہ صرف شرعی مسئلہ کا اظہار ہے اور عدالت مجاز سے اس فتویٰ کی توثیق ضروری ہے احادیث مرفوعہ متصلہ  صحیحہ قویہ اور قرآن کی آیات مذکورہ اور بیس صحابہ کرام  کی احادیث سے یہی ثابت ہے کہ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح ہوتا ہی نہیں ۔مفتی کسی قانونی سقم کا ہرگز ذمہ دار نہ ہوگا ۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص697

محدث فتویٰ

تبصرے