سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(272) رضاعی ماموں کا بھانجی سے نکاح

  • 14372
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 2650

سوال

(272) رضاعی ماموں کا بھانجی سے نکاح

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ کے بارے میں یہ کہ میرے لڑکے نےمیری زوجہ بیمار ہونے کی وجہ سے پہلے میری والدہ کا دودھ پیا  ہے ، اس وقت میرے  لڑکے کی عمر ۲،۳ ماہ تھی دس مہینے کی عمر تک اس نےمیری والدہ کا دودھ پیا ہےکیا اس لڑکے کی شادی میری بہن کی لڑکی سے ہو سکتی  ہے یا نہیں ؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب دے کر مشکور فرمائیں۔

(شوکت علی ولد محمد شریف قوم آرائیں چک نمبر 234 گ ب جڑانوالہ ضلع فیصل آباد) 


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بشرط صحت سوال مسئولہ میں جس لڑکے اور لڑکی کے باہمی نکاح کے بارے میں سوال  کیا گیا ہےان کا آپس میں نکاح شرعاً جائز نہیں کیونکہ صورت مسئولہ کے مطابق یہ لڑکا اس لڑکی کا رضاعی ماموں بن چکاہے ۔مثلاً دادی کا نام رفیعہ ہے اور رفیعہ کے لڑکے کا نام شفیق ہےاور رفیعہ کی لڑکی کا نام شفیقہ ہے اب شفیق کے بیٹے کا نام عتیق ہے جس نے اپنے  والدہ کی بیماری کے دوران دس ماہ تک اپنی دادی رفیعہ مذکورہ کا دودھ پیا ہے تو اس کی وجہ سے عتیق اپنے والد شفیق اور اپنی پھوپھی شفیقہ کا رضاعی بھائی بن چکا ہے لہٰذا وہ دودھ کی وجہ سے اپنی پھو پھی شفیقہ کی لڑکی کا رضاعی ماموں ٹھہرا اور جس طرح بحکم قرآن کی نص وَبَنَاتٗ الاختِ حقیقی بھانجی کے ساتھ نکاح حرام ہے اسی طرح رضاعی بھانجی کے ساتھ  نکاح حرام ہے چنانچہ صحیح البخاری میں ہے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے :

«فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الرَّضَاعَةُ تُحَرِّمُ مَا تُحَرِّمُ الوِلاَدَةُ»(صحيح البخارى و أمهاتكم اللاتى  أرضعنكم ويحرم من الرضاعة ما يحرم من النسب ج2ص764)

”رضاعت بھی ان رشتوں کو حرام کر دیتی ہے جن کو نسب حرام قرار دیتی ہے “

صورت مسئولہ کی نظیر بھی صحیح بخاری میں موجود ہے ۔ دیکھئے حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ حضور ﷺ کے چچا تھے ، مگر رسول اللہ ﷺ سید الشہداء حضرت حمزہ  رضی اللہ عنہ کی بیٹی کے ساتھ نکاح کر لینے کا مشورہ دیا گیا تو آپ ﷺ نے  مشورہ دینے والے (حضرت علی رضی اللہ عنہ) کو فرمایا  کہ تو میرے رضاعی بھائی کی بیٹی ، یعنی میری رضاعی بھتیجی ہے  لہٰذا نکاح جائز نہیں ۔ اصل الفاظ یہ ہیں :

(عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قِيلَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَلاَ تَتَزَوَّجُ ابْنَةَ حَمْزَةَ؟ قَالَ: «إِنَّهَا ابْنَةُ أَخِي مِنَ الرَّضَاعَةِ»(صحيح البخارى ج2 ص 764)

لہٰذا معلوم ہوا کہ صورت مسئولہ میں اس لڑکے کا نکاح اپنی پھو پھی جان کی  لڑکی کے ساتھ جائز نہیں کہ یہ لڑکا اپنی دادی کا دودھ پینے کی وجہ سے اس لڑکی کا رضاعی ماموں بن چکا ہے ،ھذا ماعندی واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب ۔

علامہ ابن رشد لکھتے ہیں :

(فَقَالَ مَالِكٌ وَأَبُو حَنِيفَةَ، وَالشَّافِعِيُّ: إِنَّهُ إِذَا أَسْلَمَتِ الْمَرْأَةُ قَبْلَهُ فَإِنَّهُ إِنْ أَسْلَمَ فِي عِدَّتِهَا كَانَ أَحَقَّ بِهَا، وَإِنْ أَسْلَمَ هُوَ وَهِيَ فَنِكَاحُهَا ثَابِتٌ،)(بداية المجتهدج2 ص 37)

”امام مالک ، امام ابو حنیفہ اور امام شافعی فرماتے ہیں کہ  جب بیوی اپنے شوہر سے پہلے مسلمان ہوجائے تو اگر اس کا کافر شوہر عدت کے اندر مسلمان ہوجائے تو وہ اس کا زیادہ حقدار ہے اور اگر خاوند مسلمان ہو جائے  اور اس کی بیوی  کتابیہ عورت ہو تو اس کا نکاح ثابت اور بحال رہتا ہے ۔ مشہور فقیہ علامہ مرغیناتی تصریح فرماتے ہیں :

((وَإِذَا أَسْلَمَ زَوْجُ الْكِتَابِيَّةِ فَهُمَا عَلَى نِكَاحِهِمَا) ؛ لِأَنَّهُ يَصِحُّ النِّكَاحُ بَيْنَهُمَا ابْتِدَاءً فَلَأَنْ يَبْقَى أَوْلَى. .) (۱: الھدایة ۔ کتاب نکاح  اھل الشرک:ج۲ ص۲۴۷ و فتح القدیر : ج۳ ص۲۹۱)

کہ جب کتابیہ عورت کا نصرانی یا یہودی  شوہر مسلمان ہوجائے تو یہ دونوں میاں بیوی اپنے نکاح پر قائم رہ سکتے ہیں کیونکہ جب کتابیہ عورت اور مسلمان دونوں میں ابتداء  نکاح درست تھا ۔ تو ان کا نکاح سابق رہنا بدرجہ اولیٰ درست ہے۔ اس تفصیل سے ثابت ہوا کہ اگر کوئی عیسائی شوہر اپنے عیسائی بیوی سے پہلے مسلمان ہو جائے تو چرچ کی طرف سے ان کا  پڑھا ہوا شرعاً بحال رہتا ہے پس اگر واقعی مسمی ایرک جان مسیح ولد جان مسیح اپنی عیسائی بیوی مسماۃ میری کشور سے پہلے مسلمان ہوا ہے تو ان کا چرچ کی طرف سے پڑھا  گیا نکاح عقد شرعاً بحال ہے ۔ یہ فتویٰ بشرط صحت سوال تحریر کیا گیا اور بشیر احمد ولد فضل دین ساکن پیال کلاں ضلع قصور حال ساکن بیگم کوٹ کی یقین دہانی پر تحریر کیا گیا ہے مفتی کسی عدالتی جھمیلہ اور قانونی سقم کا ہرگز ہرگز ذمہ دار نہ ہوگا اس کی تمام ذمہ داری سائل موصوف پر ہوگی ھذا ما عندی واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب۔یعنی قضاء اور دوبائنتہ دہی مسئول ہو گا۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص692

محدث فتویٰ

تبصرے