سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(267) نکاح میں والد کی رضامندی ضروری ہے ؟

  • 14367
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1230

سوال

(267) نکاح میں والد کی رضامندی ضروری ہے ؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

گزارش کہ ایک مسئلہ پر فتویٰ چاہیے ۔مسئلہ یہ ہے کہ میرے ایک دوست نے ایک دوسری برادری کی لڑکی سے اس کےوالدین کی رضا مندی کے بغیر شادی کرلی ہے  اب اس لڑکی کے ماں باپ کا موءقف یہ ہے کہ ہم اس شادی کو نہیں مانتے  ہم اس لڑکی کا نکاح اپنی مرضی سے کسی دوسرے سے کریں گے ۔ سوال یہ ہے کہ لڑکی کا پہلے نکاح جو ہو چکا ہے اس کی موجودگی میں کیا لڑکی کے ماں باپ اس کا نکاح کسی اور سے کر سکتے ہیں جب کہ لڑکے والے کہتے ہیں کہ ہم یہ نکاح نہیں ہونے دیں گے یہ برائے مہربانی اس کی شرعی حیثیت کے بارے میں وضاحت فرمادیں ۔

(سائل حافظ محمد اسلام تاج غازی پارک بلال سٹریٹ نمبر ۶عامر روڈ شاد باغ لاہور)  


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بشرط صحت سوال صورت مسئولہ میں واضح ہو کہ انعقاد نکاح لڑکی اور اس کےوالد یا کسی شرعی اور صحیح ولی کی باہمی رضا مندی اور ہم آہنگی پر موقوف ہے ۔ اگر لڑکی اور اس کے شرعی ولی کی باہمی رضا مندی اور ہم آہنگی نہیں ہوگی تو نکاح منعقد ہی نہیں ہوگا ۔ یعنی ایسا نکاح شرعاً صحیح نہیں ہوگا  اور ایسے نکاح کی صورت میں اس جوڑے کا اختلاط سرا سر گناہ اور سفاح ہوگا ۔ دوسرے لفظوں میں صحت نکاح کے لئے ولی کی اجازت ضروری ہے بخاری میں ہے :

(بَابُ مَنْ قَالَ: لاَ نِكَاحَ إِلَّا بِوَلِيٍّ لِقَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {فَلاَ تَعْضُلُوهُنَّ} [البقرة: 232] فَدَخَلَ فِيهِ الثَّيِّبُ، وَكَذَلِكَ البِكْرُ، وَقَالَ: {وَلاَ تُنْكِحُوا المُشْرِكِينَ حَتَّى يُؤْمِنُوا} [البقرة: 221] وَقَالَ: {وَأَنْكِحُوا الأَيَامَى مِنْكُمْ} [النور: 32] (صحیح بخاری :ج۲ ص ۷۱۱ )

”کہ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح نہیں ہوتا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب تم عورتوں کو طلاق دو اور وہ اپنی عدت پوری کرلیں اور نکاح ٹوٹ جائے تو دوبارہ ان عورتوں کو اپنے خاوندوں کے ساتھ نکاح کرنے سے مت روکو  یعنی جب طلاق رجعی ہو ۔ معلوم ہوا کہ ولی کو روکنے کا اختیا ر  ہے ورنہ اللہ تعالیٰ  یہ آیت نازل نہ فرماتا اور دوسری دونوں آیات میں بھی ولیوں کو یہی خطاب فرمایا گیا ہے کہ ولیوں کو اختیار حاصل ہے  ۔پھر امام بخاری حضرت معقل بن یسار کی مشہور حدیث لائے ہیں ۔

(وَعَنْ أَبِي بُرْدَةَ بْنِ أَبِي مُوسَى عَنْ أَبِيهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - «لَا نِكَاحَ إلَّا بِوَلِيٍّ» . رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْأَرْبَعَةُ، وَصَحَّحَهُ ابْنُ الْمَدِينِيِّ، وَالتِّرْمِذِيُّ، وَابْنُ حِبَّانَ وَأَعَلَّهُ بِإِرْسَالِهِ...و  هَكَذَا صَحَّحَهُ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ فِيمَا حَكَاهُ ابْنُ خُزَيْمَةَ) (۲: سبل السلام : ج۳ ص۱۱۷ )

”رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح نہیں ہوتا “

اس صحیح حدیث اور قرآن مجید کی مذکورہ بالا آیات کے مطابق ولی کی اجازت ضرور ی ہے ورنہ نکاح شرعاً صحیح نہ ہوگا۔ چونکہ صورت مسئولہ میں خط کشیدہ وضاحت کے مطابق یہ نکاح والد کی مرضی اور اجازت کے بغیر کیا گیا ہے لہٰذا یہ نکاح غیر شرعی اور باطل ہے ۔ مفتی کسی بھی قانونی سقم اور عدالتی کاروائی کا ذمہ دار نہ ہوگا یہ محض شرعی فتویٰ ہے جو بشرط  صحت سوال تحریر کیا گیا ہے ۔ 

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص677

محدث فتویٰ

تبصرے