سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(244) قربانی کا جانور تبدیل کرنا

  • 14349
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 4397

سوال

(244) قربانی کا جانور تبدیل کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے پاس گھر کی گائے کی ایک بچھیا ہے ، بلوغت کی عمر پوری ہونے پر وہ حاملہ ہونے کے لیے نہیں بولی ۔ ویسے جانوروں میں اس مقصد کے لیے دیگر علامات بھی ہوتی ہیں جن کی طرف ہم نے توجہ نہیں دی ۔ اس لیے گمان یہی رہا کہ یہ نسل کشی کے قابل نہیں ہے ۔ لہذا میرے والد صاحب نے اس کی قربانی کی نیت کرلی ، پھر اس بچھیا کو ایک ماہر ڈاکٹر نے دیکھا تو کہا کہ یہ گونگی ہے لیکن اس میں حاملہ ہونے کی علامتیں موجود ہیں ۔ نیز یہ بچھیا دودھ دینے میں عمدہ ثابت ہو گی ۔ اب حاملہ ہونے کے لیے بول بھی پڑی ہے ۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ ہم اس کی جگہ کسی اور گائے کی قربانی کرسکتے ہیں یا نہیں ؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں دلائل دیں ۔( شعیب الرحمن خانیوال)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

   صورت مسئولہ میں کوئی شرعی عذر بظاہر نظر نہیں آتا ، اس لیے  (يُرِ‌يدُ اللَّـهُ بِكُمُ الْيُسْرَ‌ وَلَا يُرِ‌يدُ بِكُمُ الْعُسْرَ‌) ( البقرہ آیت ھ 18) کے تحت جانور کی تبدیلی جائز معلوم ہوتی ہے چنانچہ فقہ حنبلی کی مشہور اور نہایت اہم کتاب ’’ المغنی ‘‘ میں ہے ۔

(وَيَجُوزَ أَنْ يُبَدِّلَ الْأُضْحِيَّةَ إذَا أَوْجَبَهَا بِخَيْرٍ مِنْهَا هَذَا الْمَنْصُوصُ عَنْ أَحْمَدَ .وَبِهِ قَالَ عَطَاءٌ ، وَمُجَاهِدٌ ، وَعِكْرِمَةُ ، وَمَالِكٌ ، وَأَبُو حَنِيفَةَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ) 

یعنی قربانی کو اپنے اوپر واجب ( متعین ) کر لینے کے بعد یہ جائز ہے کہ اس سے بہتر ( جانور ) کے ساتھ قربانی کو تبدیل کرلیا جائے ۔ امام احمد ، حضرت عطاء مجاہد٭ ، عکرمہ ، امام مالک امام ابو حنیفہ اور امام محمد یہ سب اس کے قائل ہیں ، فقہ حنبلی کی ایک اور کتاب ’’ الانصاف ‘‘ میں ہے :

(وإذا تعيبت لم يجز بيعها ولا هبتها إلا أن يبدلها بخير منها) ( ج 4ص 89)

جب قربانی کے لیے جانور متعین ہو جائے تو اس کا بیچنا اور ہبہ کرنا جائز نہیں ، البتہ اس کا اس سے بہتر جانور سے تبادلہ جائز ہے ۔

امام ابن حزم اس سلسلے میں لکھتے ہیں کہ :

(وَلاَ يَلْزَمُ مَنْ نَوَى أَنْ يُضَحِّيَ بِحَيَوَانٍ مِمَّا ذَكَرْنَا أَنْ يُضَحِّيَ بِهِ، وَلاَ بُدَّ, بَلْ لَهُ أَنْ لاَ يُضَحِّيَ بِهِ إنْ شَاء إِلاَّ أَنْ يَنْذُرَ ذَلِكَ فِيهِ فَيَلْزَمُهُ الْوَفَاءُ بِهِ.بُرْهَانُ ذَلِكَ: أَنَّ الأُُضْحِيَّةَ كَمَا قَدَّمْنَا لَيْسَتْ فَرْضًا فَإِذْ لَيْسَتْ فَرْضًا فَلاَ يَلْزَمُهُ التَّضْحِيَةُ إِلاَّ أَنْ يُوجِبَهَا نَصٌّ، وَلاَ نَصَّ إِلاَّ فِيمَنْ ضَحَّى قَبْلَ وَقْتِ التَّضْحِيَةِ فِي أَنْ يُعِيدَ; وَفِيمَنْ نَذَرَ أَنْ يَفِيَ بِالنَّذْرِ. وَرُوِّينَا مِنْ طَرِيقِ مُجَاهِدٍ لاَ بَأْسَ بِأَنْ يَبِيعَ الرَّجُلُ أُضْحِيَّتَهُ مِمَّنْ يُضَحِّي بِهَا وَيَشْتَرِي خَيْرًا مِنْهَا وَعَنْ عَطَاءٍ فِيمَنْ اشْتَرَى أُضْحِيَّةً, ثُمَّ بَدَا لَهُ قَالَ: لاَ بَأْسَ بِأَنْ يَبِيعَهَا وَرُوِّينَا، عَنْ عَلِيٍّ, وَالشَّعْبِيِّ, وَالْحَسَنِ, وَعَطَاءٍ, كَرَاهَةَ ذَلِكَ.قَالَ عَلِيٌّ: مَا نَعْلَمُ لِمَنْ كَرِهَ ذَلِكَ حُجَّةً.) 

’’ کسی مخصوص جانور کی قربانی کی نیت کر لینے سے یہ لازم نہیں آتا کہ اب وہ اسی جانور کی قربانی کرے ، اس میں تبدیلی کی گنجائش نہ ہو بلکہ اگر وہ چاہے تو اس کی بجائے کسی اور جانور کی قربانی کرسکتا ہے الا یہ کہ کسی جانور کی بابت نذر مانی ہوئی ہو ۔ نذر کی صورت میں نذر کا پورا کرنا ضروری ہے ، اس کی دلیل یہ ہے کہ قربانی ویسے ہی فرض نہیں بلکہ سنت ہے ۔ جب وہ فرض ہی نہیں تو جانور کے تعین  کے بعد اس متعین جانور کی قربانی کے لزوم کے لیے کسی نص شرعی کی ضرورت  ہے ، جب کہ ایسی کوئی نص نہیں ، البتہ دو صورتوں کے لیے نص موجود ہے ۔ ایک قبل از وقت قربانی کردینے کی صورت   میں کہ اسے دوبارہ قربانی کرنی پڑے گی ۔ دوسرے نذر کی صورت میں کہ جس جانور کی نذر مانی ہو اس کو قربان کرنا ضروری ہے ۔ امام مجاہد کے طریق سے مروی ہے کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ ایک شخص اپنے قربانی کے جانور کو بیچ کر اس سے بہتر جانور خریدے ۔ امام عطاء کہتے ہیں کہ کسی شخص نے قربانی کے لیے جانور خریدا پھر اس کی نظر میں وہ جچا نہیں تو اس کے بیچ دینے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔ البتہ حضرت علی ﷜ ، امام شعمی ، حسن اور عطاء سے اس طرح کی تبدیلی کی کراہت کا قول منقول ہے ۔‘‘

لیکن امام ابن حزم فرماتے ہیں کہ اس کراہت کی کوئی دلیل ہم نہیں جانتے ۔ امام ابن حزم کے اس اقتباس سے واضح ہے کہ صورت مسئولہ میں اگر نیت شدہ بچھیا کی جگہ کوئی اور اچھی گائے کی قربانی کر لی جائے تو یہ جائز ہے ، بظاہر اس  میں کوئی شرعی قباحت معلوم نہیں  ہوتی ۔ ہذا ما عندی  واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

صورت مسئولہ میں ایک اور نکتہ بھی قابل غور ہے اور وہ یہ کہ بچھیا کو قربانی کے لیے اس غلط فہمی کی بنیاد پر نامزد کیا گیا ہے کہ وہ نسل کشی کے قابل نہیں ۔ یہ غلط فہمی اس کی نامزدگی کے لیے گویا شرط کی حیثیت رکھتی ہے اگرچہ یہ صریح شرط تو نہیں تاہم اس کو معنوی قسم کی شرط قرار دیا جاسکتا ہے ۔ ( یعنی نیت میں شرط) اور عام اصول ہے کہ ( اذا فات الشرط فات المشروط ) جب شرط باقی نہ رہے تو مشروط ( جس کی شرط کی گئی ہو ) بھی ختم ہو جاتا ہے ۔ لہذا جب بچھیا کا نسل کشی کے قابل نہ ہونا باقی نہ رہا تو اس کی نامزدگی خود بخود ختم ہو گئی ۔ لہذا مذکورہ صورت میں بچھیا کی تبدیلی میں شرعی کوئی ممانعت نظر نہیں آتی ۔ 

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص610

محدث فتویٰ

تبصرے