سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(239) قولی و عملی تواتر سے قربانی کا ثبوت

  • 14343
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1630

سوال

(239) قولی و عملی تواتر سے قربانی کا ثبوت

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

قولی و عملی تواتر سے قربانی کا ثبوت کوئی ثبوت  ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بعض لوگ جو روایات حدیث کے استناد میں شک رکھتے ہیں اور بنا بریں دین میں کوئی بات محض حدیث کی بنیاد پر ماننے کو تیار نہیں ہوتے ، بلکہ قرآن سے سند اور حجت چاتے ہیں آپ  ان کو کہتا ہوا سنیں گے بلکہ بار ہا سن چکے ہوں گے کہ حضرت ابراہیم ﷤ کی اس سنت ( قربانی) کا تعلق تو صرف مناسک حج سے تھا ۔ اور قرآن نے بھی امت مسلمہ کے لیے صرف اسی ذیل میں اس سنت کا اجرا کیا ہے ۔ حج اور حجاج کے دائرہ سے باہر اس سنت کا اجرا کی ہدایت قرآن میں کہیں نہیں ملتی ۔

یہ بات ٹھیک ہے ۔ حضرت ابراہیم ﷤ کی قربانی بے شک اسی موقع کی ہے اور اس قربانی کو جاری کرنے کا حکم قرآن نے حج ہی کے سلسلہ میں دیا ہے ، لیکن اگر حدیث کی بنیاد پر دین میں کوئی چیز ماننے سے ان لوگوں کو صرف یہی خیال  مانع ہے کہ حدیث کی روایات مستند ہی نہیں ہیں ، نہ یہ کہ قرآن کے سوا دین میں کوئی شے حجت اور ماخذ دین ہی نہیں ، حالانکہ وہ مانتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے کسی قول یا عمل کی کوئی روایت اگر قابل اطمینان ثابت ہو جائے تو وہ دین میں حجت ہو گی اور اس سے ثابت شدہ امر دین ہی کا حکم سمجھا جائے گا تو انہیں معلوم ہو نا چاہیے کہ رسول اللہ ﷺ سے قربانی کی روایت ان روایات میں سے نہیں ہے جن کی صحت پر صحیح یا غلط طور پر کوئی بھی شک کیا جا سکے ۔ یہ روایت صرف قول کی نہیں ہے کہ کہہ دیا جائے کہ پتہ نہیں کس نے گھڑ لی ہو بلکہ ایسے مسلسل ، متواتر  اور علانیہ عمل کی روایت بھی اس سلسلہ میں موجود ہے جس میں جھوٹ چار قدم بھی نہیں چل سکتا تھا ۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما راوی ہیں اور ان کی یہ روایت جامع ترمذی میں موجود ہے کہ

أَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْمَدِينَةِ عَشْرَ سِنِينَ يُضَحِّي

’’رسول اللہ ﷺ مدینہ کی پوری دس سالہ اقامت میں برابر قربانی کرتے رہے ۔‘‘

كَانَ رَسُولُ اللَّهِ  صلى الله عليه وسلم  يَذْبَحُ وَيَنْحَرُ بِالْمُصَلَّى ( رواہ البخاری)

’’رسول اللہ ﷺ کا معمول تھا کہ عیدگاہ ہی پر قربانی ( بھی) کیا کرتے تھے ۔‘‘

کیا کوئی معقولیت پسند آدمی سوچ سکتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے بارے میں اتنا بڑا جھوٹ بھی امت میں قبولیت پاسکے کہ ایک کام آپ نے سرے سے کیا ہی نہ ہو اور کہنے والے کہے کہ آپ دس سال تک متواتر عیدگاہ کے ایسے بھرے مجمع میں یہ کام کرتے رہے ہیں ۔ کس قدر بے عقلی کی بات ہے کہ ایسی روایات کو بھی یہ کہہ کر نظر انداز کر دیا جائے کہ پتہ نہیں کہ سچ ہے یا جھوٹ! حدیث کے مجموعے ہزار دیر سے مرتب ہوئے ہوں مگر ان میں اس قسم کی باتیں بھی اگر عجمی سازش کی ماتحت جھوٹ موٹ گھڑ کے بھر دی گئی ہوں تو ایک طرف تو ان عجمیوں کی سازشی عقل کی داد دیجئیے کہ جھوٹ کی وہ صنف اختیار کی کہ منہ سے نکلتے ہی پکڑ لیا جائے اور دوسری طرف حیرت میں ڈوب جائیے کہ کوئی ایک عرب نہ نکلا جو ان عجمیوں کا گریبان پکڑتا کہ ہماری پشتیں گزر گئیں ہمیں رسول اللہ ﷺ کے اس مسلسل اور مجمع عام کے عمل کی خبر نہ ہوئی آج تم ترمذو بخارا سے اٹھ کر ہمیں خبر دینے  آئے ہو ! رسول اللہﷺ دس سال تک متواتر اور علی الاعلان ایک عمل کرتے رہے اور ہمارے آباؤ اجداد نے جو آپ اس کے ایک ایک قدم سے ملا کر چلتے تھے اس سے کوئی اعتنا ہی نہ کیا ؟ اور پھر یہ ہی نہیں ، تم یہ بھی خبر  دیتے ہو کہ آپ نے یوں یوں اس قربانی کے فضائل اپنے اصحاب سے بیان کئے اور ترغیب کے ساتھ ساتھ یہ زبردست تہدید بھی کی کہ

"مَنْ كَانَ لَهُ سَعَةٌ وَلَمْ يُضَحِّ, فَلَا يَقْرَبَنَّ مُصَلَّانَا" - رَوَاهُ أَحْمَدُ, وَابْنُ مَاجَه, وَصَحَّحَهُ اَلْحَاكِمُ, لَكِنْ رَجَّحَ اَلْأَئِمَّةُ غَيْرُهُ وَقْفَه

’’ جس کسی نے وسعت ہوتے ہوئے قربانی نہیں کی وہ ہماری عیدگاہ کے قریب بھی نہ آئے ۔‘‘

مگر اس کے باوجود ہمارا پورا معاشرہ اور ہمارے اسلاف کی زندگی ہے کہ عید کی اس قربانی سے ناآشناس محض گویا رسول  خدا کی ترغیب و تہدید سے بھی ان کا کانوں میں جوں نہ رینگی اور رسول اللہ ﷺ کے اس متواتر عمل کی ان کو ہوا تک نہ لگی ۔ 

قربان ہو جائیے اس عرب  معاشرہ کی سادہ لوحی پر کہ اس نئی دریافت پر ایک عام ہیجان تو  درکنار کسی ایک فرد کے ذہن میں بھی یہ بدیہی سوال پیدا نہ ہوا بلکہ  سب کے سب امنا و صدقنا کہتے ہوئے قربانی کرنے لگے ۔ کیا یہ عقل میں آنے والی بات ہے اور کوئی عقل والا یسی صورت حال فرض بھی کرسکتا ہے ۔

پھر اس سے کیا ثابت ہوا؟ اس سے بالکل دو اور دو چار کی طرح یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضورﷺ سے یہ قربانی کے عمل ہی کی نہیں قربانی کے حکم کی بھی روایات ہر کذب و خطا سے پاک ہیں اور امت کے عمومی توارث عمل نے ان کی پوری پوری تصدیق کی ہے ۔ یعنی یہ روائتیں اگرچہ دیر سے بھی مدون ہو کر منظر عام پر  آئی ہوں مگر ان پر کو ئی انکار اور استعجاب و احتجاج نہ ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ قربانی کا عمل پورے عموم کے ساتھ نسلاً بعد نسل امت میں منتقل ہوتا چلا آرہا  تھا مگر یہ عمومتی توارث کی شہادت کسی دعوے کا  وہ ثبوت ہے جس کی قوت و قطعیت سے وہی شخص انکار کر سکتا ہے جو  موجودہ قرآن کے اصلی قرآن ہونے میں شک کرنے کو تیار ہو ۔ کیونکہ اس کے لیے بھی ہمارے پاس آج سب سے بڑا ثبوت یہ توارث ہی ہے ۔

بہر حال لاریب یہ ثابت ہے کہ رسول اللہﷺ نے یہی حج کے مخصوص دن ( 10 ذی الحجہ ، یوم النحر) والی قربانی ، عید کی قربانی کے عنوان سے حج کے باہر بھی پابندی کے ساتھ کی ہے اور اس کا اسی طرح حکم بھی دیا ہے ۔ بس اب کیا تامل ہوسکتا ہے کہ یہ قربانی رسول خداﷺ کا لایا ہوا دین ہے ۔ نہ کہ بعد میں کسی کی ایجاد و اختراع

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص603

محدث فتویٰ

تبصرے