السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا عورت اپنے گھر میں اعتکاف بیٹھ سکتی ہے یا نہیں، قرآن وحدیث کی روشنی میں جواب تحریر فرمائیں؟(ع۔م غازی آباد لاہور)
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
عورت کے لئے گھر میں اعتکاف بیٹھنا قطعاً جائز نہیں، کیونکہ اعتکاف کی صحت کے لئے وقوف فی المسجد بنیادی شرط ہے، یعنی وہ اعتکاف اعتکاف ہی جو مسجد کے علاوہ کسی اور جگہ بیٹھا جائے۔ چنانچہ صحیح البخاری میں یوں باب قائم کیا گیا ہے:
بَابُ الِاعْتِكَافِ فِي العَشْرِ الأَوَاخِرِ، وَالِاعْتِكَافِ فِي المَسَاجِدِ كُلِّهَا لقولہ تعالیٰ ﴿وَلَا تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ ۗ تِلْكَ حُدُودُ اللَّـهِ فَلَا تَقْرَبُوهَا... ١٨٧﴾ البقرة (ج۱ص۶۷۱ باب رمضان)
’’رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کرنا اور اعتکاف ہر مسجد میں جائز ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تم اپنی عورتوں سے اس وقت صحبت نہ کرو جب مسجدوں میں اعتکاف کر رہے ہو یہ اللہ کی طرف سے مقرر کردہ حدیں ان کے قریب نہ جاؤ۔‘‘
اس تبویب سے معلوم ہوا کہ اعتکاف کے لئے مسجد میں بیٹھنا شرط ہے۔ اور اس پر علماء کا اتفاق ہے۔ اور یہ شرط اتنی کڑی ہے کہ مستحاضہ (وہ عورت جس کا نظام حیض یعنی ماہواری) بگڑا ہوا اور اس کا کون شرط ہمیشہ جاری رہتاہو۔ اس کے لئے بھی یہی حکم ہے کہ وہ بھی مسجد ہی میں اعتکاف کرے۔ چنانچہ صحیح البخاری میں ایک باب یوں ہے۔ باب اعتکاف المستحاضۃ ص۴۵و۶۷۳ج۱۔
عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: «اعْتَكَفَتْ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ امْرَأَةٌ مِنْ أَزْوَاجِهِ مُسْتَحَاضَةٌ، فَكَانَتْ تَرَى الحُمْرَةَ، وَالصُّفْرَةَ، فَرُبَّمَا وَضَعْنَا الطَّسْتَ تَحْتَهَا وَهِيَ تُصَلِّي۔ (صحیح البخاری ج۱ص۶۷۳)
’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ کے ساتھ آپ کی ایک بی بی (ام سلمہ رضی اللہ عنہا) نے اعتکاف کیا وہ استحاضہ کے مرض میں مبتلا تھیں۔ ہمیشہ سرخ اور زرد سا خون دیکھتی رہتیں۔ یہاں تک ہم کبھی ان کے تلے ایک طست رکھ دیتے اور وہ نماز پڑھتی رہتیں۔‘‘
اس حدیث صحیح سے ثابت ہوا کہ مستحاضہ عورت بھی گھر میں اعتکاف نہیں بیٹھ سکتی، پس ثابت ہوا کہ صحت اعتکاف کے لئے مسجد میں بیٹھنا شرط ورنہ اعتکاف صحیح اور درست نہ ہوگا۔
علمائے احناف کے نزدیک عورت کو اپنے گھر میں بیٹھنا چاہیے۔ مگر ہم وثوق سے کہتے ہیں کہ ان کے پاس اس قول کی کوئی دلیل نہیں۔ تلاش وبسیار کے باوجود کوئی ضعیف حدیث بھی نہیں ملی۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب