سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(215) نماز اور روزہ

  • 14319
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1442

سوال

(215) نماز اور روزہ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نماز اور  روزہ دین اسلام کا اہم ترین رکن ہے ۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نماز بلاشبہ اسلام کا اہم ترین رکن ہے اور اس کے لئے قرآن حکیم اور احادیث قدسی میں تاکید آئی ہے، مگر روزے کی ۃمیت بھی کچھ کم نہیں ہے۔ روزہ اگر صحیح معنی میں روزہ ہو اور اس طرح رکھا جائے جس طرح اس کے رکھنے کا حکم ہے تو یہ انسان کو سرتا پاتقویٰ بنا دیتا ہے اور یوں دیکھا جائے تو نماز اور روزہ اپنی اثر آفرینی کے اعتبار سے جداگانہ عبادتیں نہیں ہیں بلکہ ایک ہی حقیقت کے دو پہلو ہیں۔ نماز کی حالت فاعلی ہے۔ حکم ہے کہ دربار خداوندی میں حاضری دو اور اپنی روح جزئی کا براہ راست تعلق روح کلی سے قائم کرو اور اس انداز سے کہ ایک نماز کے وقت سے دوسری نماز کے وقت تک تم چاہے کسی کام کاج، کاروبار، بکھیڑے دھندے میں لگے ہو مگر یہ تعلق ٹوٹنے نہ پائے۔ اگر دنیاوی کام کے دوران بھی اس تعلق کو قائم رکھو گے تو تمہارا یہ پورا وقت بھی عبادت میں شمار ہوگا۔ یہاں تک کہ رات کو جب نیند تم پر غالب آجائے گی تو سونے کا وقفہ بھی اسی مد میں شامل رہے گا اور روزے کی حالف انفعالی ہے اس میں حکم ہے کہ ان تمام چیزوں سے بچو جو تمہاری روح کی ترقی کی راہ میں حائل ہو سکتی ہیں۔ سبحان اللہ! طبیب حازق نے علاج بھی تجویز کیا ہے اور ساتھ ساتھ پرہیز بھی بتایا ہے اور یہ ظاہر ہے کہ شفائے کامل اسی وقت ممکن ہے جب مریض علاج اور پرہیز دونوں پر عمل کرے۔ نماز کی حیثیت دوا کی ہے اور روزہ پرہیز کی حیثیت رکھتا ہے۔ دوا اور پرہیز دونوں کی اہمیت اپنی اپنی جگہ ظاہر ہے۔ غور کا مقام ہے کہ جو شخص روزے کی مشق سے اپنی جائز خواہشات کو بحکم خداوندی دبانے کا خوگر ہوجائے گا۔ ناجائز خواہشات کو دبانے کے لئے اسے کیا مشکل پیش آ سکتی ہے۔یہی شان تقوٰی ہے جو روزے کی بدولت حاصل ہوتی ہے۔

روزے کی اہمیت کا اندازہ دنیا کے کامل ترین انسان کے عمل سے ہوتا ہے۔ نماز کے بعد جو عبادت رسول اللہﷺ کو سب سے زیادہ محبوب تھی وہ روزہ ہی تھا۔ آپﷺ اس کثرت سے روزے رکھا کرتے تھے ک اہل خاندان، اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی دنگ رہ جاتے تھے۔ سچ ہے اعلیٰ ترین روح کو پاکیزگی اور صفائی کے نمونے بھی بہترین ہی دکھانے تھے۔ دیکھنے والوں نے آنحضورﷺ کا یہ عمل دیکھا اور جس جس نے اس کو اپنایا اور اپنی مراد کو پہنچ کر رہا۔

روزے کے متعلق فرمان باری تعالیٰ

سورۃ البقرہ آیات ۱۸۳تا ۱۸۷ میں فرمایا:

۱۔ اے ایمان والو تم پر روزہ فرض کیا گیا ہے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیا گیا تھا تاکہ تم تقویٰ حاصل کرو۔ (یہ) گنتی کے چند دن ہیں۔ اس پر بھی جو کوئی مریض ہو یا سفر میں ہو تو دوسرے دنوں میں تعداد پوری کر دے۔ (آیت ۱۸۳) اور جو لوگ ایسی عمر کو پہنچ گئے ہوں کہ روزہ رکھنے پر قادر نہیں، یا ایسے مریج جن کے مرض میں روزے سے افاقہ کے بجائے اضافہ کا خدشہ ہو۔ اور وہ استطاعت رکھتے ہو۔ ان پر (ایک روزے کا) بدلہ ایک مسکین کا (عام) کھانا ہے۔ پھر جو کوئی خوشی خوشی نیکی کرے (یعنی ایک شخص کے بجائے دو شخصوں کو کھانا کھلا دے) کھانے کی مقدار بڑھا دے یا کوئی اور سلوک کرے تو یہ اس کے حق میں اور بہتر ہے۔ اور اگر تم سوجھ بوجھ سے کام لو تو بہتر تمہارے حق میں یہی ہے کہ تم روزے رکھو (اور روزے کی برکتوں سے محروم نہ ہو)۔( آیت۱۸۴) رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا، جو سرتاپاہدایت ہے اور اس میں ہدایت اور(حق وباطل میں) امتیاز کے کھلے دلائل موجود ہیں۔ سو تم میں سے جو کوئی اس مہینے کو پائے اسے لازم ہے کہ اس کے روزے رکھے۔ اور جو کوئی مریض ہو یا سفر میں ہو تو وہ دوسرے دنوں میں تعداد پوری کر دے۔ اللہ تعالیی تمہارے لئے آسانی چاہتا ہےاور تمہارے ساتھ سختی (کامعاملہ) نہیں (کرنا) چاہتا اور تمہیں چاہیے کہ تم تعداد پوری کرو اور اللہ تعالیٰ نے جو تمہیں ہدایت بخشی ہے اس پر اللہ کی بڑائی کرو تا کہ شکر گزار بن جاؤ۔ (آیت۱۸۵)اور جب میرے بندے آپ سے میرے متعلق (یعنی میرے قرب اور بعد کی بابت) دریافت کریں تو (آپ میرے بندوں سے میری طرف سے کہ دیجئےکہ) میں قریب ہی ہوں جب کوئی پکارنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اس پکار کا جواب دیتا ہوں۔ پس چاہیے کہ وہ میرے احکام کی تعمیل کریں اور مجھ پر ایمان رکھیں (اور اس بات کا یقین رکھین کہ پکار خالی نہیں جائے گی) تاکہ وہ صحیح راہ پر قائم رہیں۔ (آیت ۱۸۶) تمہارے لئے روزوں کی راتوں میں اپنی بیویوں کے پاس جانا جائز کیا گیا وہ تمہارے لئے بمنزلہ لباس ہیں اور تم ان کے لئے بمنزلہ لباس ہو۔ اللہ نے دیکھا کہ تم اپنے آپ سے خیانت کر رہے تھے تو اس نے تم پر رحمت سے توجہ فرمائی اور تمہاری یہ کیانت کی غلطی معاف کر دی تو اب تم کو ان سے ملنے کی اجازت ہے اور اللہ نے جو تمہارے لئے لکھ رکھا ہے (یعنی اولاد جوازدواجی زندگی کا اصل مقصد ہے) اس کے طالب بنو اور کھاؤ پیو یہاں تک کہ فجر کی سفید دھاری (صبح صادق) سیاہ دھاری (صبح کاذب) سے نمایاں ہوجائے، پھر رات تک  روزہ پورا کرو۔ اور جب تم مسجد پر اعتکاف کر رہے ہو تو بیویوں سے نہ ملو، یہ اللہ کے (مقرر کردہ) ضابطے ہیں، پس تم ان حدود کے قریب بھی نہ پھٹکنا (بلکہ ان کی نگرانی پوری احتیاط سے کرنا) اللہ اپنے احکام کو لوگوں کے لئے اسی طرح کھول کر بیان کرتا ہے (جس طرح اس نے یہاں روزہ اس کے حدودواوقات اور اعتکاف اور اس کے متعلقات کے احکام کو تفصیل سے بیان فرمایا ہے) تاکہ وہ تقویٰ اختیار کریں۔ (آیت ۱۸۷)

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص576

محدث فتویٰ

تبصرے