سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

مردہ جانور کھانے کا حکم

  • 143
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1727

سوال

مردہ جانور کھانے کا حکم
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

جب مردہ جانور کھانا حرام ہے تو مردہ مچھلی کیوں کھا تے ہیں۔؟ کیا ہم جھینگا اور کیکڑا کھا سکتے ہے۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ہم پر اللہ سبحانہ و تعالى كى نعمت ہے كہ اس نے ہمارے دين كو بہت آسان اور سہل بنايا ہے، اور ہم پر كوئى سختى اور شدت نہيں، اور ہم پر ہمارى استطاعت و طاقت سے باہر كوئى كام لازم نہيں كيا، ہمارے ليے بہت سارى اشياء حلال كر دى ہيں جو پہلى شريعتوں ميں حرام كى گئى تھيں۔

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

’’اللہ تعالى تمہارے ساتھ آسانى كرنا چاہتا ہے، اور تم پر تنگى نہيں چاہتا ۔‘‘

اور اس ميں سمندرى كھانے والى اشياء بھى شامل ہيں، چاہے وہ حيوان ہو يا نباتات، زندہ ہو يا مردہ۔

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

’’تمہارے ليے سمندر كا شكار كرنا اور اس كا كھانا حلال كيا گيا ہے، تمہارے فائدہ كے ليے، اور مسافروں كے واسطے۔‘‘المآئدۃ ( 96 )۔

ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں:

اس كا شكار وہ ہے جو اس سے زندہ پكڑا جائے، اور اس كا كھانا وہ ہے جو سمندر مرا ہوا باہر پھينك دے۔

اور بہت ہى قليل سمندرى جانور ايسے ہيں جنہيں بعض اہل علم نے مندرجہ بالا اباحت سے مستثنى كيا ہے، اور وہ درج ذيل ہيں:

1 - مگرمچھ:

صحيح يہى ہے كہ اس كا كھانا جائز نہيں، كيونكہ اس كى كچلى ہے، اور پھر يہ خشكى پر بھى رہتا ہے ـ اگرچہ يہ زيادہ وقت پانى ميں بھى بسر كرے ـ تو ممنوعہ جانب غالب سمجھى جائيگى۔

( اور وہ يہ ہے كہ يہ خشكى والا اور كچلى والا جانور ہے )۔

2 - مينڈك:

اسے كھانا جائز نہيں، كيوكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے اسے قتل كرنے سے منع فرمايا ہے، جيسا كہ درج ذيل حديث ميں وارد ہے:

عبد الرحمن بن عثمان رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے مينڈك قتل كرنے سے منع فرمايا "

اسے امام احمد اور ابن ماجہ نے روايت كيا ہے، اور صحيح الجامع حديث نمبر ( 6970 ) ميں بھى ہے۔

اور قاعدہ اور اصول يہ ہے كہ جسے قتل كرنا منع كيا گيا ہو اسے كھانا جائز نہيں، كيونكہ اگر اس كا كھانا جائز ہوتا تو اسے قتل كرنا جائز ہوتا۔

3 - بعض اہل علم نے سمندری سانپ كو بھى مستثنى كيا ہے،

ليكن صحيح يہ ہے كہ اگر وہ صرف سمندر ميں ہى رہتا ہو تو درج ذيل فرمان بارى تعالى كے عموم كى بنا پر كھانا جائز ہو گا:

فرمان بارى تعالى ہے:

’’تمہارے ليے سمند كا شكار كرنا اور اس كا كھانا حلال كيا گيا ہے، تمہارے فائدہ كے ليے۔‘‘المآئدۃ ( 96 )۔

4 - پانى ميں رہنے والا سمندرى كتا اور كچھوا:

ليكن صحيح يہ ہے كہ اسے ذبح كرنے كے بعد كھانا جائز ہے، كيونكہ يہ خشكى اور سمندر دونوں جگہ رہتا ہے، اس ليے ممنوعہ جانب كو غالب كيا گيا ہے، اور يہاں ايك قاعدہ اور اصول ہے وہ يہ كہ:

" جو چيز بھى سمندر اور خشكى دونوں جگہ رہتى ہے اسے ـ احتياطا ـ خشكى ميں رہنے والے جانور كا حكم ديا جائيگا، اس ليے اسے ذبح كرنا ضرورى ہے "

ليكن اس سے سرطان (جسے ہم اردو میں کیکڑا اور انگلش میں کریب کہتے ہیں، علوی)خارج ہے، اسے ذبح كرنا لازم نہيں چاہے وہ سمندر اور خشكى دونوں جگہ رہتا ہے، كيونكہ اس ميں خون نہيں۔

5 - ہر وہ چيز جس ميں ضرر اور نقصان ہو اس كا كھانا جائز نہيں، چاہے وہ سمندرى ہی كيوں نہ ہو۔

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

’’اور تم اپنے نفسوں كو قتل مت كرو، يقينا اللہ تعالى تمہارے ساتھ رحم كرنے والا ہے۔‘‘

اور ايك مقام پر ارشاد بارى تعالى اس طرح ہے:

’’اور تم اپنے آپ كو ہلاكت ميں مت ڈالو۔‘‘

ديكھيں: المغنى ( 11 / 83 ) اور حاشية الروض ( 7 / 430 ) اور تفسير ابن كثير ( 3 / 197 ) اور احكام الاطعمةتاليف الشيخ فوزان۔

 ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

محدث فتوی

فتوی کمیٹی

تبصرے