سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(189) نماز عید کی تکبیرات میں رفع الیدین کا ثبوت

  • 14293
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 4249

سوال

(189) نماز عید کی تکبیرات میں رفع الیدین کا ثبوت

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا عیدین کی تکبیروں کے ساتھ رفع الیدین کرنا حدیث سے ثابت ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صلوٰۃ العید کی تکبیرات زوائدمیں ہرتکبیر کے ساتھ رفع الیدین کرنا سنت ہے۔

دلیل نمبر۱: جناب عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے:

يَرْفَعُهُمَا فِي كُلِّ تَكْبِيرَةٍ يُكَبِّرُهَا قَبْلَ الرُّكُوعِ حَتَّى تَنْقَضِيَ صَلَاتُهُ۔ (سنن ابی داؤد ج۱ص۴۶۴رقم ۷۲۲ والبغوی فی شرح السنة: ج۳ص۲۲وسنن دارقطنی: ج۱ص ۲۸۸)

’’رسول اللہﷺ رکوع سے پہلے ہر تکبیر پر اپنے دونوں ہاتھ اٹھاتے تھے حتی کہ آپ کی نماز ختم ہوجاتی۔‘‘

شرح السنہ کے محقق نے اس حدیث کے بارے میں کہا کہ اس کی اسناد صحیح ہیں۔ بقیہ صحیح مسلم کا راوی ہے ار مختلف فیہ ہے۔ حافظ ذہبی(متوفی۷۳۸ھ) نے کہا:

وَثِقَه الْجَمْھُوْرُ فِیْمَا سَمِعَه مِنَ الثقات وَقَال إِذَا قَالَ ثَنَاوَنَا فَھُوَ ثقة۔

’’بقیہ کو ثقہ قرار دیا ہے جب وہ ثقہ راویوں سے سماع کی تصریح کرے۔‘‘

نسائی نے کہا جب وہ حد ثناواخبرنا کہے تو ثقہ ہے۔ (الکاشف ۱؍۱۰۶رقم ۶۲۶)

بقیہ نے اپنے استاد الزبیدی سے سماع کی تصریح کر رکھی ہے۔ الزبیدی کا پورا نام محمد بن الولید بن عامر ہے۔ (سنن الکبریٰ للبیھقی ۲؍۸۳)

الزبیدی صحیحین کا راوی ثقہ ثبت من کبار اصحاب الزھری تھا۔ (تقریب التھذیب: ص۳۲۲)

بقیہ اگر سماع کی تصریح کرے تو ناصر الدین البانی بھی اسے صدوق وحسن الحدیث تسلیم کرتے ہیں۔ (دیکھئے: سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ ۴۶۰۱،۶۲۱،۶۴۸،۷۳۰،۸۰۲)

بقیہ سے یہ روایت محمد بن المصفی الحمصی اور ابو عتبه احمد بن الفرج  نے بیان کی ہے۔

مُحَمَّدُ بَنُ الْمُصفی بن صدوق له أوھام وکان یدلس۔ (تقریب: ص۳۱۹)

’’سچاتھا، اسے اوہام ہوئے ہیں اور وہ تدلیس کرتا تھا۔‘‘ (یاد رہے کہ اس روایت میں اس نے سماع کی تصریح کی ہوئی ہے، لہٰذا تدلیس کا الزام مردودہے)

احمد بن الفرج مکتلف فیہ راوی ہے، بعض نے کذاب اور بعض نے ثقہ کہا۔ مگر ناصر الدین البانی نے اسے حافظے کی وجہ سے ضعف اور صدق میں غیر متہم قرار دیا اور کہا فَمَثَلَہُ یُسْتَشْھَدُ بِہِ وَلاَیُحْتَجُّ بِہِ یعنی اس کی روایت شواہد میں پیش کی جاتی ہے اور اس سے حجت نہیں پکڑی جاتی۔ (سلسلۃ الصحیحۃ: ۲/۲۳۶) یہ روایت بھی بطور شاہد ہے کیونکہ وہ اس میں منفرد نہیں ہے بلکہ محمد بن الصفی نے اس کی متابعت کر رکھی ہے۔

دلیل نمبر۲: عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے دوسری روایت میں ہے:

کان رسول اللہﷺ رَفَعُهُمَا فِي كُلِّ رَكْعَةٍ وَتَكْبِيرَةٍ كَبَّرَهَا قَبْلَ الرُّكُوعِ، حَتَّى تَنْقَضِيَ صَلَاته۔ (مسند احمد: ۲؍۱۳۴، منتقی ابن الحارود: ص۶۹؍۱۷۸، سنن دار قطنی: ۱؍۲۸۹)

’’رسول اللہﷺ ہر رکعت میں رکوع سے پہلے ہر تکبیر کہنے پر رفع الیدین کرتے تھے حتی کہ آپ کی نماز ختم ہوجاتی۔‘‘

ابن شہاب زہری نے سماع کی تصریح کر دی ہے۔ اس کا شاگرد بھتیجا محمد بن عبداللہ بن مسلم، ابن اخی الزہری صحاح ستہ کا راوی اور جمہور کے نزدیک ثقہ وصدوق ہے۔ حافظ ذہبی نے کہا الامام العالم الثقةالأمام العالم الثقة (سیر اعلام النبلاء:۸؍۱۹۷)  حافظ ابن ھجر نے کہا کہ سچا تھا، اسے اوہام ہوئے ہیں۔ (تقریب) ایسے شخص کی روایت جب ثقہ راویوں کے خلاف نہ ہو تا حسن لذاتہ ہوتی ہے۔ درج بالا روایت اس کا قوی شاہد ہے، لہٰذا ابن اخی الزہری کی بیان کردہ حدیث صحیح لغیرہ (یعنی حجت) ہے۔ (اس سند کے باقی سارے راوی ثقہ ہیں)

ان دونوں حدیثوں کا صاف اور واضح مفہوم یہی ہے کہ ردوع سے پہلے جو تکبیر بھی کہی جائے (بشرطیکہ اس تکبیر کا ثبوت سنت سے ملتا ہو) ہر تکبیر میں رفع الیدین  کرنا سنت ہے۔ چونکہ عیدین کی نماز میں رکوع سے پہلے تکبیرات زائدہ میں رفع الیدین کرنا سنت نہیں ہے کیونکہ یہ نبیﷺ سے ثابت نہیں ہے۔ غلط اور بلا دلیل ہے۔

علامہ ناصر الدین البانی نے ہماری پیش کردہ دلیل نمبر ۲ کوسند صحیح علی شرط الشیخین تسلیم کر کے یہ تاویل کی ہے اس حدیث کا سیاق فرض نماز ہے جس میں عید کی تکبیرات زائدہ کا ذکر نہیں ہے(ارواء الغلیل ۳؍۱۱۳رقم ۶۳۰) حالانکہ یہ رتاویل انتہائی کمزور وفاسد ہے۔

۱۔ اکثر اصولیین کا قول ہے کہ اَلْعَبِرَةُ بِعُمُومِ اللَّفْظِ لاَبِخُصُوصِ السَّبَب (فتح الباری بحوالہ توجیہ القاری: ص۸۱ للیشخ ثناءاللہ الزاھدی)

(یعنی اعتبار عمومی الفاظ کے ساتھ ہے نہ کہ خصوصی الفاظ کے ساتھ۔

۲: اس عموم کے خلاف کوئی دلیل بھی موجود نہیں ہے جب کوئی مخصص نہ ہو تو عموم پر عمل لازمی ہے (دیکھئے: توجیہ القاری ص۷۹)

۳: بیہقی اور ابن المنذر نے یہ حدیث عیدین کی تکبیرات کے سلسلہ میں بطور حجت پیش کی ہے۔ (تلخیص الخبیر ۸۶؍۲) ان دو قابل اعتماد اماموں کے مقابلے میں البانی کی تاویل مردودہے۔

علامہ البانی نے جعفر بن محمد الفریابی کی احکام العیدین (ص۸۳) سے مالک بن انس کا قول نقل کیا ہے کہ ہر تکبیر کے ساتھ رفع الیدین کرو، مگر اس کے ثبوت مجھے کچھ بھی معلوم نہیں۔ (ارواء الغلیل ۳؍۱۱۳ وقال رواہ القریابی (۳؍۱۳۶) بسند صحیح عند الولید۔)

اس قول کا مفہوم یہ ہے کہ رفع الیدین کرو میں نے اس کی حمایت میں سنا ہے۔ معاذ اللہ! اس کا مطلب ہرگز نہیں ہے کہ رفع الیدین کرو مگر اس کے ثبوت میں مجھے کچھ بھی معلوم نہیں ہے۔ اس کی تشریح سے مالک رحمہ اللہ پر الزام آتا ہے کہ ایک بے ثبوت بات پر عمل کرنے کا انہوں نے کیوں حکم دیا؟

اگر فرض کریں کہ اس کا وہی مفہوم ہے جس کی طرح البانی نے اشارہ کیا ہے تو یہ بھی کوئی دلیل نہیں ہے کہ جو بات مالکؒ کے علم میں نہ ہو وہ حجت نہیں ہوتی۔ خود اھکام العیدین للفریابی(ص۱۸۲) پر باسند صحیح محدث شام اوزاعی سے ان تمام تکبیرات کے ساتھ رفع الیدین کا حکم ثابت ہے بلکہ یہی قول عطاء تابعی کا ہے۔ (مصنف عبدالرزاق: ۳؍۲۹۷ واسنادہ صحیح۔)

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص550

محدث فتویٰ

تبصرے