سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(185) احکام و مسائل عید الفطر

  • 14289
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 4057

سوال

(185) احکام و مسائل عید الفطر

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

عیدالفطر کے احکام ومسائل پر قدرے تفصیل سے روشنی مطلوب ہے۔ امید ہے کہ آپ کتاب وسنت کے مطابق رہنمائی فرمائیں گے۔(سائل: آپ کی شقیقہ، امیت اللہ بنت مولانا ماحمد حسین بلوچ چک ۵۳۱گ ب ضلع فیصل آباد)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عید کی رات:

اس رات میں عبادت کرنے کے متعلق متعدد احادیث مروی ہیں، ایک دو پیش خدمت ہیں:

عَنْ أَبِي أُمَامَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ قَامَ لَيْلَتَيِ الْعِيدَيْنِ مُحْتَسِبًا لِلَّهِ لَمْ يَمُتْ قَلْبُهُ يَوْمَ تَمُوتُ الْقُلُوبُ۔ (ابن ماجه: ص۱۲۸ باب فیمن قام لیلتی العیدین الترغیب والترھیب ج۲ص۶۵۲)

’’حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب نبی کریمﷺ نے فرمایا جو شخص ثواب کی نیت سے عیدین راتوں کو زندہ رکھے گا، یعنی عبادت میں لگا رہے گا تو حشر کے روز اس کا دل زندہ رہے گا۔‘‘

۲۔ عیدین کی رات بکثرت عبادت کرنے والے قیامت کے روز عذاب سے مامون وسلامت رہیں گے۔ (طبرانی)

بہرحال اس سلسلہ میں مرفوع حدیثیں بھی آئی ہیں جو ضعیف ہیں۔ (دیکھئے مجمع الزروائد: ص۱۹۹۔ تلخیص الحبیر: ص۸۰ح۲)

غسل:

عیدکے دن غسل مستحب ہے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم وتابعین عیدین کے دن غسل کیا کرتے تھے۔ زادالمعاد میں ہے:  وکان یقتسل لعیدین وصح الحدیث فیہ۔

وَلٰکِن ثَبَتَ عَنِ ابْنِ عمر مَعَ شِدَّۃِ اِتباعه لِسُّنَّة انہ کان یغْتَسِلُ یَوْمَ العید۔ (زادالمعاد: ج۱ص۴۴۶)

’’نماز سے رسول اللہﷺ عیدین کی نماز قبل غسل کیا کرتے تھے اس بارے میں صحیح حدیث بھی مروی ہے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اتباع سنت میں بڑے سخت تھے وہ بھی عیدکی دن غسل کیا کرتے تھے۔‘‘

نئے یا دھلے ہوئے کپڑے پہننا

آنحضرتﷺ سے عیدکے لئے نئے کپڑے رکھنے ثابت ہیں:

جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَلْبَسُ بُرْدَ حِبَرَةَ فِي كُلِّ عِيدٍ۔ (رواہ الشافعی، نیل الاوطار: ص۳۲۲ج۳)

’’رسول اللہﷺ ہر عید کے موقع پر اچھی قسم کا یمنی لباس زیب تن فرمایا کرتے تھے۔‘‘

خوشبو:

عید کے دن خوشبو لگانے کے استحباب میں بہت سی روایات مروی ہیں۔ ایک روایت یہ بھی ہے:

عَن حَسَن أَنَّه أَمَرَنَا رَسُولُ اللہﷺ أَن نَّتَطَیّٰبَ ب،أَوجْوَدَمَا نَجِدُ فِی العیدین۔ (تلخیص الحبیر: کتاب صلوة العیدین ج۲ص۸۱)

’’آنحضرتﷺ نے ہم کو حکم دیا کہ ہم عیدین میں عمدہ ترتین خوشبو لگایا کریں۔‘‘

کچھ کھا کر عید الفطر پڑھنی چاہیے:

اس بارے میں متعدد احادیث مروی ہیں۔ ایک یہ بھی ہے:

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: «كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لاَ يَغْدُو يَوْمَ الفِطْرِ حَتَّى يَأْكُلَ تَمَرَاتٍ وَيَأْكُلُهُنَّ وِتْرًا۔ (رواہ احمدوبخاری ج۱ص۱۳۰)

’’حضرت نبی اکرمﷺ عید الفطر کے دن چند کھجوریں تناول فرما کر نماز ادا کرنے کے لئے عید گاہ تشریف لے جاتے۔‘‘

معلوم ہوا کہ عیدالفطر کی نماز سے پہلے میٹھی چیز کھانا سنت ہے، اگرکھجوریں کھائی جائیں تو وتر کھائی جائیں۔

یا پیادہ جانا چاہیے:

نماز عید کی ادائیگی کے لیے پیدل جانا بہتر ہے۔ اس سلسلہ میں بہت سی حدیثیں اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے آثار مروی ہیں۔ چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

قَالَ مِنَ السُّنَّة أَنَ یَخْرُجَ أِلَی العید مَا شیا۔وقال الترمذی حدیث حسن۔ (ترمذی مع تحفة الأحوذی، نیل الأوطار ج۳ص۴۲۴)

’’عید پڑھنے کے لئے پیدل جانا سنت ہے۔‘‘

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے متعلق لکھا ہے:

كَانَ يَخْرُجُ إِلَى الْعِيدِ مَاشِيًا، وَیعودُ مَاشِيًا» (سبل السلام: ج۳ص۷۰)

’’حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما عید کے لئے پیدل آیا جایا کرتے تھے۔‘‘

نیل الاوطار میں ہے:

وَقَدْ ذَهَبَ أَكْثَرُ الْعُلَمَاءِ إلَى أَنَّهُ يُسْتَحَبُّ أَنْ يَأْتِيَ إلَى صَلَاةِ مَاشِيًا۔ (نیل الأوطار: ص۳۲۶ج۳)

’’اکثر علماء اس طرف گئے ہیں کہ نماز عید کے لئے پیدل جانا مستحب ہے۔‘‘

عورتیں نماز عید میں ضرور جائیں:

عورتیں نماز عیدمیں ضرور شرکت کریں بلکہ حائضہ عورتیں بھی ضرور جائیں اور مومنین کی دعا میں شرکت کریں۔ چنانچہ بخاری شریف میں ہے:

عَنْ أُم عطیة قَالَت أَمَرَنَا نَبِيُّنَا صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَنْ نُخْرِجَ العَوَاتِقَ وَذَوَاتِ الخُدُورِ وَزَادَ فِي حَدِيثِ حفصه وَيَعْتَزِلْنَ الحُيَّضُ المُصَلَّى۔ (بخاری: ص۴۵ج۱باب شھود الحائض العیدین)

’’حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺ نے ہمیں فرمایا کہ ہم نوجوان پردہ داروں حتی کہ حیض والی عورتوں کو بھی لے کر عیدگاہ چلیں تاکہ وہ برکت کے مقام پر حاضر ہوں اور مومنوں کی دعا شرکت کریں، البتہ حائضہ عورتیں نماز عید میں شرکت نہ کریں ۔‘‘

وضاحت:

حنفیہ کے ہاں عورتوں کو عیدگاہ میں جانے کی اجازت نہیں ہے، لیکن ان کا یہ فتویٰ صحیح احادیث کے خلاف ہے، تاہم محققین حنفیہ نے بھی اب اجازت دے دی ہے، چنانچہ حضرت شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں:

إِستحَبَّ خُرُوجُ الجَمِیْعِ حَتَّی الصِّیبیان والنساء۔ (حجة اللہ البالغة: ج۲ص۲۷)

’’(عید چونکہ اسلام کا شعار ہے لہٰذا) مردوں کے علاوہ سب بچوں اور عورتوں کا بھی عیدگاہ جانا مستحب ہے۔‘‘

حضرت انور شاہ کاشمیری فرماتے ہیں:

أصل مذھبنا جواز خروج النساء إلی العیدین۔ (العرف الشذی: ص۲۴۲)

’’ہمارا اصل مذہب تو یہی ہے کہ عورتیں عید گاہ میں جا سکتی ہیں۔‘‘

عورتوں کو عید کی نماز میں سنگھار وغیرہ کرن کے جانے سے ثواب کے بجائے الٹا گناہ لازم آتا ہے، تاہم یہ ایک حقیقت ہےکہ حضرت ابوبکررضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نزدیک ضروری ہے کہ عورتیں عید گاہ میں حاضر ہوں۔ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں:

أنھما قال حق علی کل ذات نطاق الخروج إلی العیدین۔ (فتح الباری: پ۴ص۵۳۰)

علامہ شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

وَالْحَدِيثُ وَمَا فِي مَعْنَاهُ مِنْ الْأَحَادِيثِ قَاضِيَةٌ بِمَشْرُوعِيَّةِ خُرُوجِ النِّسَاءِ فِي الْعِيدَيْنِ إلَى الْمُصَلَّى مِنْ غَيْرِ فَرْقٍ بَيْنَ الْبِكْرِ وَالثَّيِّبِ وَالشَّابَّةِ وَالْعَجُوزِ وَالْحَائِضِ وَغَيْرِهَا مَا لَمْ تَكُنْ مُعْتَدَّةً أَوْ كَانَ خُرُوجُهَا فِتْنَةً أَوْ كَانَ لَهَا عُذْرٌ۔ (نیل الاوطار: ص ۳۲۷ج۳)

’’ام عطیہ والی حدیث اور دوسری ہم معنی حدیثوں سے عورتوں کا عید گاہ میں جانا شرعی طور پر ثابت ہو جاتا ہے۔ کنواری، بیوہ، جوان، بوڑھی اور حائضہ میں فرق کئے بغیر، مگر یہ کہ وہ عدت گزار رہی ہو یا اس کا نکلنا فتنہ کا باعث ہو اور یا پھر وہ معذور ہو۔‘‘

امام محمد بن اسماعیل الیمانی فرماتے ہیں:

وَالْحَدِيثُ دَلِيلٌ عَلَى وُجُوبِ إخْرَاجِهِنَّ، وَفِيهِ أَقْوَالٌ ثَلَاثَةٌ (: الْأَوَّلُ) : أَنَّهُ وَاجِبٌ، وَبِهِ قَالَ الْخُلَفَاءُ الثَّلَاثَةُ أَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ وَعَلِيٌّ وَيُؤَيِّدُ الْوُجُوبَ مَا أَخْرَجَهُ ابْنُ مَاجَهْ، وَالْبَيْهَقِيُّ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عَبَّاسٍ «أَنَّهُ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - كَانَ يُخْرِجُ نِسَاءَهُ وَبَنَاتَهُ فِي الْعِيدَيْنِ۔ (سبل السلام: ص۶۵ج۲)

’’عورتوں کو عید گاہ لے جانے پر حدیث وال ہے۔ اس میں تین قول ہیں: (۱) عورتوں کا نماز عید میں شریک ہونا واجب ہے، یہ قول تین کلفائے راشدین حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے، عورتوں کو عید گاہ لے جانے کے وجوب پر یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ آنحضرتﷺ امہات المومنین اور اپنی بیٹیوں کو عید گاہ میں لے جانا کرتے تھے۔‘‘ اور آپ کا یہ عمل ساری زندگی جاری رہا۔‘‘

صدقۃ الفطر کے مختصر احکام:

زَکوٰۃُ الفطر طُھْرَۃُ لِّلصَّائِمِ م،نَ اللَّغوِ والرفث طعمة للمساکین۔ (ابوداؤد، ابن ماجه وغیرہ ص۱۳۲)

’’صدقۃ الفطر روزے دار کے روزہ کو لغو اور بے ہودہ باتوں کے نقصان سے بچانے اور عید کی خوشیوں میں مساکین کو شامل کرنے کا نام ہے۔‘‘

صدقۃ الفطر ہر ایک پر واجب ہے:

عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ: «فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَكَاةَ الفِطْرِ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ، أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ عَلَى العَبْدِ وَالحُرِّ، وَالذَّكَرِ وَالأُنْثَى، وَالصَّغِيرِ وَالكَبِيرِ مِنَ المُسْلِمِينَ۔ (بخاری: ج۱ص۲۱۴)

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرمﷺ نے صدقہ فطر فرض قرار دیا ہے غلام، آزاد مرد اور عورت، چھوٹے اور بڑے مسلمان پر۔‘‘

حنفیہ اور بعض دوسرے حلقون کے نزدیک صدقہ فطر کے لئے صاحب زکوٰۃ ہونا ضروری ہے، مگر ان کا یہ کیال درست نہیں۔

چنانچہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

ولا یعتبرو فی زکوة الفطر ملک نصاب بل تحب علی من ملک صاعا فاضلا عن قوت یوم العید ولیلة وھو قول الجمھور۔ (اختیارات ابن تیمیة)

’’صدقہ فطر کی ادائیگی کے لئے صاحب نصاب ہونا کوئی ضروری نہیں، بلکہ صدقہ فطر ہر اس شخص پر واجب ہے جس کے پاس عید کے د ن اور رات کی جرورت سے فاضل ایک صاع غلہ ہو۔‘‘

چنانچہ حدیث سابق (عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ) کی شرح میں ہے:

وَفِيهِ دَلِيلٌ لِلشَّافِعِيِّ وَالْجُمْهُورِ فِي أَنَّهَا تَجِبُ عَلَى مَنْ مَلَكَ فَاضِلًا عَنْ قُوتِهِ وَقُوتِ عِيَالِهِ يَوْمَ الْعِيدِ۔ (نووی شرح مسلم: ص۲۱۷ج۱)

۴۔ صدقہ فطر ایک صاع فی کس دینا ضروری ہے، کوئی جنس بھی ہو، گیہوں کے نصف صاع ہونے پر کوئی دلیل موجود نہیں اور ابو سعید کدری رضی اللہ عنہ کی نص صریح کے مقابلہ میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کےقیاس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اگر کسی نے صحیح حدیث کے مقابلہ میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے قیاس پر عمل کرنا ہی ہو تو پھر وہ اچھی قسم کی کشمش یا کھجوروں کا نصف صاع دے۔ کیونکہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں شامی گندم عربوں کو ایسی ہی مہنگی پرتی تھی جیسے آج کل ہمارے ہاں کھجور اور کشمش مہنگی پرتی ہے۔ بہرحال ہمار فتویٰ صحیح حدیث پر ہے کہ فی کس پورا صاع ادا کیا جائے، احتیاط بھی اسی میں ہے۔

۵۔ ہر چند کے صاع کے وزن میں خاصا اختلاف ہے، تاہم حضرت شیخ الحدیث مولانا احمد اللہ صاحب رحمہ اللہ کا سند کے مطابق صاع کا وزن تقریباً ۲ سیر گیارہ چھٹانک بنتا ہے۔ (اعشاری نظام کے مطابق صاع کا وزن ٹھیک اڑھائی ۱؍۲-۲کلو ہے۔ عفیف غفرلہ ولوالدیہ)

صدقہ فطر عید کی نماز سے پہلے ادا کرنا چاہیے:

عید الفطر کی نماز سے پہلے پہلے صدقہ فطر ادا کرنا جروری ہے، ورنہ بعد از نماز عید صدقہ فطر ادا نہیں ہوگا بلکہ وہ عام صدقہ ہوگا۔

۱۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: «فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَكَاةَ الْفِطْرِ طُهْرَةً لِلصَّائِمِ مِنَ اللَّغْوِ وَالرَّفَثِ، وَطُعْمَةً لِلْمَسَاكِينِ، مَنْ أَدَّاهَا قَبْلَ الصَّلَاةِ، فَهِيَ زَكَاةٌ مَقْبُولَةٌ، وَمَنْ أَدَّاهَا بَعْدَ الصَّلَاةِ، فَهِيَ صَدَقَةٌ مِنَ الصَّدَقَاتِ۔ (ابن ماجة: ص۳۶ باب صدقة الفطر)

۲۔ عن ابن عمر أن رسول اللہﷺ کَانَ یأمُرُ بإخراجِ الزکوة قبل الخروج للصلوة یوم الفطر۔ (تحفة الأحوذی: ص۲۹ج۲)

’’آنحضرتﷺ نماز عید کو جانے سے پہلے صدقہ ادا کرنے کا حکم دیا کرتے تھے ورنہ بعد میں یہ عام صدقہ  ہوگا۔

عید کھلے میدان میں:

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: «أَصَابَ النَّاسَ مَطَرٌ فِي يَوْمِ عِيدٍ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى بِهِمْ فِي الْمَسْجِدِ» (ابن ماجة: ص ۹۴، عون المعبود: ص۴۵۱ج۱)

’’عید کے دن بارش آگئی تو آنحضرتﷺ نے لوگوں کو مسجد میں نماز پڑھائی۔‘‘

زادالمعاد میں ہے:

وھدية ن فعلھما فی المصلی دائما وَلَمْ يُصَلِّ الْعِيدَ بِمَسْجِدِهِ إِلَّا مَرَّةً وَاحِدَةً أَصَابَهُمْ مَطَرٌ فَصَلَّى بِهِمُ الْعِيدَ فِي الْمَسْجِدِ۔ (زاد المعاد: ص۱۲۱ج۱)

’’آنحضرتﷺ نے نماز عیدین ہمیشہ کھلے میدان میں ادا فرمائی، صرف ایک دفعہ بارش کی وجہ سے مسجد میں پڑھی تھی(بخاری شریف میں اس مضمون کی متعدد روایات موجود ہیں۔ ملاحظہ ہو بخاری شریف، ص: ۱۳۱)

عید کی نماز کا وقت:

عیدالاضحیٰ کی نماز کا وقت اگرچہ بہ نسبت عیدالفطر کے پہلے ہوجاتا ہے، تاہم سورج کے نکلنے کے تھوڑی دیر بعد عیدالفطر کی نماز کا وقت بھی ہوجاتا ہے۔ ابو داؤد میں ہے:

عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُسْرٍ، أَنَّهُ خَرَجَ مَعَ النَّاسِ يَوْمَ فِطْرٍ أَوْ أَضْحًى فَأَنْكَرَ إِبْطَاءَ الْإِمَامِ فَقَالَ: «إِنْ كُنَّا لَقَدْ فَرَغْنَا فِي سَاعَتِنَا ھٰذَا۔ (عون المعبود: ص۴۴۱ ج۱، ابن ماجه، سکت عنه ابو داأد والمنذری ورحال اسنادہ عن ابی داؤد ثقات، نیل الاوطار: ص۳۲۲ج۳)

’’پیش امام نے نماز عیدالفطر یانماز عیدالاضحیٰ میں کر دی تو حضرت عبداللہ بن بسر رضی اللہ عنہ نے اس تاخیر پر تنقید کرنے ہوئے کہا کہ ہم چاشت کے وقت نماز عید سے فارغ ہوجایا کرتے تھے۔‘‘

عن جندب رضی اللہ عنہ قَالَ: «كَانَ النَّبِيُّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - يُصَلِّي بِنَا يَوْمَ الْفِطْرِ، وَالشَّمْسُ عَلَى قَيْدِ رُمْحَيْنِ وَالْأَضْحَى عَلَى قِيدِ رُمْحٍ۔ (تلخیص الحبیر: ص۱۴۴ج۱)

’’حضرت جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرتﷺ ہمیں عیدالفطر اس وقت پڑھایا کرتے تھے جب سورج دو نیزے پر ہوتا تھا اور نماز عیدالاضحیٰ اس وقت پڑھایا کرتے تھے جب سورج ایک نیزے پر ہوتا تھا۔‘‘

عیدین کے لئے اذان اور تکبیر نہیں:

عیدین کی نمازوں کے لئے اذان کہنی جائز نہیں ہے، چنانچہ حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

صَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعِيدَيْنِ، غَيْرَ مَرَّةٍ وَلَا مَرَّتَيْنِ، بِغَيْرِ أَذَانٍ وَلَا إِقَامَةٍ۔ (مسلم، ابوداؤد، ترمذی ونیل الاوطار:ص ۳۳۵ج۳)

’’میں نے آنحضرتﷺ کے ساتھ متعدد دفعہ عید کی نمازیں بغیر تکبیر اور اذان کے پڑھی ہیں۔‘‘(بخاری شریف ص۱۳۱ج۱ابھی ملاحظہ فرمائیے)

عیدگاہ مین منبر نہیں چاہیے:

عیدگاہ میں منبر لے جان خلاف سنت ہے، تاہم مروان بن حکم نے سیاسی مصلحتوں کے پیش نظر عیدگاہ میں منبر کو استعمال کیا تھا جس پر حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے سخت تنقید فرمائی تھی۔ بخاری شریف (ص۱۳۱ج۱) میں ہے:

فَلَمْ يَزَلِ النَّاسُ عَلَى ذَلِكَ حَتَّى خَرَجْتُ مَعَ مَرْوَانَ - وَهُوَ أَمِيرُ المَدِينَةِ - فِى أَضْحًى أَوْ فِطْرٍ، فَلَمَّا أَتَيْنَا المُصَلَّى إِذَا مِنْبَرٌ بَنَاهُ كَثِيرُ بْنُ الصَّلْتِ

ابو داؤد میں ہے:

عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ: أَخْرَجَ مَرْوَانُ الْمِنْبَرَ فِي يَوْمِ عِيدٍ، فَبَدَأَ بِالْخُطْبَةِ قَبْلَ الصَّلَاةِ، فَقَامَ رَجُلٌ فَقَالَ: يَا مَرْوَانُ، خَالَفْتَ السُّنَّةَ، أَخْرَجْتَ الْمِنْبَرَ فِي يَوْمِ عِيدٍ، وَلَمْ يَكُنْ يُخْرَجُ فِيهِ،۔ (یون المعبود: ص۴۴۳ج۱)

صاحب عون المعبود کے مطابق ایک اور شخص نے روکا ہوگا جس کا نام عمارہ بن رویبہ ہے۔(عون المعبود جا، ص۴۴۱) مطلب یہ ہے کہ پہلے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے، پھر حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ار بعد میں اس شخص (عمارہ) نے مروان کو منع کیا ہوگا۔

عید سےپہلے یا بعد کوئی نماز نہیں:

حدیث شریف کے مطابق عید سے پہلے یا بعد کوئی نماز نہیں ہے، تاہم گھر واپس آ کر نفلی نماز پڑھی جا سکتی ہے۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: «أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ يَوْمَ الفِطْرِ، وصَلَّى رَكْعَتَيْنِ لَمْ يُصَلِّ قَبْلَهَا وَلاَ بَعْدَهَا۔ (تحفة الاحوذی: ص۳۷۸ج۱)

’’جناب نبی کریمﷺ عیدک الفطر کے دن عیدگاہ تشریف لائے اور دو رکعت نماز ادا فرمائی، عید کی دو رکعتوں سے پہلے اور بعد کوئی نماز نہ پڑھی۔‘‘

طریقہ:

اس نماز کی دو رکعتیں ہیں۔ دونوں رکعتوں میں باقی نمازوں کے برعکس کچھ تکبیریں زائد کہی جاتی ہیں۔ بدیں وجہ ان کو تکبیرات زوائد کہا جاتا ہے۔ ان ی گنتی اور ان کے مقام میں سخت اختلاف ہے۔ بقول امام الحقق شوکانی رحمہ اللہ ان تکبیروں کی تعداد اور مقام کے متعلق علمائے سلف کے دس اقوال ہیں۔ (شوکانی ص ۳۳۹ج۳) ہم ان میں سے صحیح تر اقوال لکھنے پر اکتفا کریں گے۔

صحیح مسلک یہ ہے  کہ انتقال کی تکبیروں کے علاوہ کل بارہ تکبیریں کہنی چاہییں، سات پہلی رکعت میں قرأت سے پہلے اور پانچ دوسری رکعت میں قرأت سے پہلے۔ ازروئے دلائل ہمارے نزدیک یہی مسلک راجح ہے، دلائل یہ ہیں؛

عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، «أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَبَّرَ فِي عِيدٍ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ تَكْبِيرَةً، سَبْعًا فِي الْأُولَى، وَخَمْسًا فِي الْآخِرَةِ۔ (نیل الأوطار: ص۳۳۸ج۳ باب عدد تکبیرات)

زائد تکبیروں میں آنحضرتﷺ کا عمل یہ ہے کہ آپﷺ نے پہلی رکعت میں سات اوردوسری میں پانچ تکبیریں کہیں۔

وفی رواية قَالَ: قَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «التَّكْبِيرُ فِي الْفِطْرِ سَبْعٌ فِي الْأُولَى، وَخَمْسٌ فِي الْآخِرَةِ، وَالْقِرَاءَةُ بَعْدَهُمَا كِلْتَيْهِمَا۔ (رواہ احمدوابن ماجة۔ نیل الأوطار: س۳۳۸ج۳، قال المحافظ فی التلخیص صححه احمد وعلی بن المدنی والبخاری وقال العراقی إسنادہ صالح، عون المعبود: ص۴۴۶ج۱)

’’آنحضرتﷺ نے فرمایا: عیدالفطر میں بارہ تکبیریں ہیں۔ سات پہلی رکعت میں اراء سے پہلے اور پانچ دوسری میں قرأت سے پہلے۔‘‘

۳۔ سنن دار قطنی میں انہی عداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کی حدیث ہے:

أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «كَبَّرَ فِي الْعِيدَيْنِ الْأَضْحَى وَالْفِطْرِ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ تَكْبِيرَةً فِي الْأُولَى سَبْعًا وَفِي الْأَخِيِرَةِ خَمْسًا سِوَى تَكْبِيرَةِ الْإِحْرَامِ۔

قال شمس الحق فی المغنی حدیث عبداللہ بن عبدالرحمٰن الطائفی عن عمرو بن شعیب عن أبیه عن جدہ۔ (اخرجه ابو داؤد وابن ماجه قال الترمذی فی علله الکبیر قال البخاری حدیث الطائفی ایضا صحیح والطائفی مقارب الحدیث، دار قطنی معنی ج۲ص۴۸ زادالمعاد ج۱ص۴۴۴)

۴۔  مؤطا امام مالک اور مؤطا امام محمد میں ہے:

عن نافع أَنَّهُ قَالَ: شَهِدْتُ الْأَضْحَى وَالْفِطْرَ مَعَ أَبِي هُرَيْرَةَ. فَكَبَّرَ فِي الرَّكْعَةِ الْأُولَى سَبْعَ تَكْبِيرَاتٍ قَبْلَ الْقِرَاءَةِ. وَفِي الآخِرَةِ خَمْسَ تَكْبِيرَاتٍ  قَبْلَ الْقِرَاءَةِ۔ (موطا امام مالک ص۱۶۶)

’’نافع کہتے ہیں کہ میں نے دونوں عیدیں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ پڑھیں، انہوں نے پہلی رکعت میں سات اور دوسری میں پانچ تکبیریں کہیں اور دونوں میں قرأت سے پہلے۔‘‘ (یہ اثر حکماً مرفوع ہے)

ھٰذَا لَا یَکُونُ رأیَا اِلَّا تَوْقیفا یجب التسْلِیمُ۔ (تعلیق الممجد ص۱۴۱ کشف الغطا حاشیه ۵ ص۱۶۶)

’’یہ اجتہادی بات نہیں ہوسکتی۔ آنحضرتﷺ کا حکم ضرور ہوگا۔ لہٰذایہ واجب التسلیم ہے۔‘‘

امام شوکانی  رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

قَالَ الْعِرَاقِيُّ وَهُوَ قَوْلُ أَكْثَرِ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنَ الصَّحَابَةِ وَالتَّابِعِينَ وَالْأَئِمَّةِ قَالَ وَهُوَ مَرْوِيٌّ عَنْ عُمَرَ وَعَلِيٍّ وَأَبِي هُرَيْرَةَ وَأَبِي سَعِيدٍ وَجَابِرٍ وبن عمر وبن عَبَّاسٍ وَأَبِي أَيُّوبَ وَزَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ وَعَائِشَةَ وَهُوَ قَوْلُ الْفُقَهَاءِ السَّبْعَةِ مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ وَعُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ وَالزُّهْرِيِّ وَمَكْحُولٍ وَبِهِ يَقُولُ مَالِكٌ وَالْأَوْزَاعِيُّ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَإِسْحَاقُ،قَالَ الشَّافِعِيُّ وَالْأَوْزَاعِيُّ وَإِسْحَاقُ إِنَّ السَّبْعَ فِي الْأُولَى بَعْدَ تَكْبِيرَةِ الْإِحْرَامِ۔ (نیل الاوطار: ص۳۳۹ج۳)

’’امام عراقی بارہ تکبیروں کے متعلق کہتے ہیں کہ صحابہ، تابعین اور ائمہ دین سے اکثر کا مذہب یہی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ،حضرت علی،حضرت ابوہریرہ،اابوسعید،جابر بنعبداللہ، عبداللہ بن عمر، عبداللہ بنعباس، ابو ایوب، زیدبن ثابت اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم کا بھی یہی قول ہے۔ فقہائے سبعہ، یعنی سعید بن میتب عروی بن زبیر، قاسم بن محمد، ابوبکر بن عبدالرحمان، کارجہ بن زید، سالم بن عبداللہ اور سلیمان بن یسار کا یہی مذہب ہے(یہ سب اہل مدینہ ہیں) اور یہی مذہب ہے عمر بن عبدالعزیز زہری کا، اور اوزاعی، شافعی، احمد اور اسحاق رحمہ اللہ سب اسی کے قائل ہیں‘‘
امام محمد حضرت نافع والی روایت ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:

قَدِ اخْتُلِفَ النَّاسُ فِي التَّكْبِيرِ فِي الْعِيدَيْنِ، فَمَا أَخَذْتَ بِهِ فَهُوَ حَسَنٌ وَأَفْضَلُ ذَلِكَ عِنْدَنَا مَا رُوِيَ عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ۔ (مؤطا امام محمد: ص۱۴۱)

’’لوگوں کا عیدین کی تکبیروں میں اختلاف ہے جس پر تو عمل کرے اچھا ہے، لیکن ہمارے نزدیک نو تکبیروں والی روایت جو حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، افضل ہے۔‘‘

تکبیروں میں رفع یدین:

کسی مرفوع اور صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے کہ آنحضرتﷺ سے زوائد تکبیروں میں رفع یدین کیا کرتے تھے۔ عون المعبود میں ہے:

وَأَمَّا رَفْعُ الْيَدَيْنِ فِي تَكْبِيرَاتِ الْعِيدَيْنِ فَلَمْ يَثْبُتْ فِي حَدِيثٍ صَحِيحٍ مَرْفُوعٍ۔ (عون المعبود، ج۱ص۴۴۸)

تاہم حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما متبع سنت ہونے کے باوصف زوائد تکبیروں میں رفع یدین کیا کرتے تھے۔ (زاد المعاد ص۱۲۱ج۱)

خطبہ نماز عید کے بعد:

نماز عید ادا کرنے کے بعد خطبہ پڑھنا چاہیے:

عَنِ ابْنِ عُمَرَ، «أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبَا بَكْرٍ وَعُمَرَ كَانُوا يُصَلُّونَ الْعِيدَيْنِ قَبْلَ الْخُطْبَةِ۔ رواہ الجماعة إلا اباداؤد۔ (نیل الأوطار: ص۳۳۳ج۳)

’’آنحضرتﷺ، سیدنا ابو بکر اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ خطبہ سے پہلے نماز عید ادا فرمایا کرتے تھے۔‘‘

خطبہ :

امام مالک فرماتے ہیں:

لا ینصرف حتی ینصرف الامام۔ (موطا امام مالک: ص۱۶۹)

’’خطبہ سنے بغیر نہ جانا چاہیے۔‘‘

مدد نہ وغیرہ کتب میں ہے کہ آپﷺ خطبہ عید میں تقویٰ، خشیت الہٰی اور اطاعت الہٰی پر زور دیتے اور امر بالمعروف، نہی عن المنکر کا وعظ فرماتے، جہاد وغیرہ کے لئے چندہ کی اپیل بھی کرتے۔

راستہ بدل کر آنا چاہیے:

بخاری، مسلم، ترمذی، ابوداؤد اور دوسری کتب حدیث میں ہے کہ آپﷺ نماز عیدین ادا کرکے راستہ بدل کر تشریف لاتے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص535

محدث فتویٰ

تبصرے