سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(171) ملازمت کی جگہ پر نماز قصر جائز نہیں؟

  • 14275
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 2444

سوال

(171) ملازمت کی جگہ پر نماز قصر جائز نہیں؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں اپنے گھر سے تقریباً ۱۲۰ کلو میٹر کے فاصلے پر نوکری کرتا ہوں، نوکری والی جگہ پر ہاسٹل میں ایک کمرہ کرائےپر حاصل کیا ہوا ہے۔ ہر ہفتہ میں پانچ دن قیام ہوتا ہے۔اس دوران کھانا وغیرہ ہوٹل سے ہی کھانا پڑتا ہے، البتہ کمرہ میں بستر وغیرہ مستقل ہی رہتا ہے۔ ایسے میں مجھے نماز قصر پڑھنی چاہیے یا مکمل نماز؟ اس کی علاوہ یہ صورت بھی ہوتی ہے کہ صبح گھر سے چلا، ڈیوٹی کی ادائیگی کے بعد ہاسٹل والے کمرے میں گیا ہی نہیں اور واپس آ گیا۔ ایسے میں ظہر اسی شہر میں پڑھنی پڑے تو کیا احکامات ہیں؟ راستے میں سسرال شہر بھی آتاہے، آیا سسرال میں قصر جائز ہے یا مکمل پڑھنی چاہیے۔ ااور صرف شہر سے گزرنے کے کیا احکامات ہیں؟ قصر کی ھالت میں ظہر اور عصر اکٹھے پڑھنے اور اسی طرح مغرب اور عشاء کو ایک ساتھ پڑھنے کے کیا احکامات ہیں؟ (سائل: احمد کامران صدیقی ۱۸۸ب لالہ رخ واہ کینٹ)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

آپ چونکہ اس جگہ مستقل ملازمت کرتے ہیں، لہٰذا آپ کا اپنے دفتر یا ہوسٹل میں پانچ دن قیام عارضی قیام کے حکم میں نہیں بلکہ یہ مستقل رہائشی قیام ہے، لہٰذا آپ اس قیام کے دوران مکمل نماز پڑھا کریں۔ آپ کے لئے قصر نماز جائز نہیں، علاوہ ازیں قصر فرض نہیں بلکہ افضل ہے، لہٰذا احوط اور اسلم یہی ہے کہ آپ پوری نماز پڑھا کریں۔ اپنے شہر یا گاؤں سے دفتر آتے ہوئے اور دفتر سے شہر کو لوٹتے ہوئے جاری سفر میں بلا شبہ قصر پڑھ سکتے ہیں۔ واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

ہوسٹل میں جانے نہ جانے سے آپ کے حق میں سفر اور اقامت کے احکام میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ آپ اس لئے مقیم کے حکم میں ہیں کہ آپ یہاں مستقل ملازمت کر رہے ہیں ہوسٹل کا کمرہ آپ کی اقامت میں تبدیلی کا موجب نہیں۔ لہٰذا اس صورت میں بھی آپ جب تک دفتر میں ہوں گے تو آپ کو مکمل نماز ہی پڑھنی ہوگی۔ ہاں دوران سفر آپ قصر کر سکتے ہیں۔

آپ اپنے سسرال کے ہاں قیام کے دوران قصر نماز پڑھ سکتے ہیں بشرطیکہ یہ قیام تین دن سے زیادہ نہ ہو۔ واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

قرآن مجید میں ہے:

﴿...إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا ﴿١٠٣﴾...النساء

’’اہل ایمان پر نماز وقت کی پابندی کے ساتھ فرض کی گئی ہے۔‘‘

لہٰذا صحیح نماز وہ ہے جو اول وقت میں ادا کی جائے۔ آخر وقت میں ایک ذمہ داری ادا ہو گی، اللہ کی رضامندی حاصل نہ ہوگی۔ اسی طرح کسی عذر کے بغیر جمع بین الصلوٰتین درست نہیں۔ ابو عالیہ کہتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

جَمَعُ الصَّلَاتَینِ مِنْ غَیرِ عُذْرِ مِّنَ الْکَبَائِرِ (ھُوَ مُرسَلٌ) اَبُو الْعَالِيَة لم۔ یَسْمَعُ مِنْ عُمَرَ۔ (بیھقی باب ان الجمع من غیر عذر من الکبائر ج۳ص۱۶۹)

بلا عذر دو نمازیں جمع کرنا کبیرہ گناہ ہے۔

اس مسئلہ کے متعلق حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مرفوع حدیث بھی مروی ہے، مگر وہ حدیث حنش راوی کی وجہ ضعیف ہے۔ (سنن کبری بیھقی: ج۳ ص۱۶۹)

۱۔ جمع تقدیم:

دوسری نماز کو پہلی نماز کے ساتھ پڑھنا جیسے عصر کی نماز ظہر کی نماز کے ساتھ اور عشاء کی نماز مغرب کے وقت پڑھے۔

۲۔ جمع تاخیر:

پہلی نماز کو دوسری نماز کے وقت میں پڑھنا جیسے ظہر کو عصر کے ساتھ اور مغرب کو عشاء کے ساتھ جمع کر کے پڑھے۔

۳۔ جمع صوری:

پہلی نماز کو اس کے اپنے آخری وقت میں اور دوسری کو اس کے اولین وقت میں پڑھے۔ اس کو ’’جمع صوری‘‘ کہتے ہیں۔

جمع بین الصلوٰتین کی ان تینوں صورتوں کا ذکر احادیث میں موجود ہے:

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ " أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا زَالَتِ الشَّمْسُ وَهُوَ فِي مَنْزِلِهِ جَمَعَ بَيْنَ الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ، وَإِذَا لَمْ تَزَلْ حَتَّى يَرْتَحِلَ سَارَ حَتَّى إِذَا دَخَلَ وَقْتُ الْعَصْرِ نَزَلَ [ص:233] فَجَمَعَ الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ، وَإِذَا غَابَتِ الشَّمْسُ وَهُوَ فِي مَنْزِلِهِ جَمَعَ بَيْنَ الْمَغْرِبِ وَالْعِشَاءِ۔ (سنن کبری بیھقی: باب جمع الصلاتین فی السفر ج۳ص۱۶۳)

’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اگر رسول اللہﷺ روال کے بعد سفر شروع فرماتے تو عصر کو ظہر کے ساتھ جمع فرماتے اگر زوال سے پہلے سفر شروع فرماتے تو ظہر کو عصر کے ساتھ جمع فرماتے۔ اگر غروب شمس کے بعد سفر فرماتے تو عشاء کو مغرب کے ساتھ اسی وقت ادا فرماتے اور جب غروب شمس سے پہلے سفر پر روانہ ہوتے تو مغرب کو عشاء کے ساتھ پڑھتے۔‘‘

اس حدیث میں جمع تقدیم اور جمع تاخیر دونوں کا ذکر ہے۔

أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى بِالْمَدِينَةِ سَبْعًا وَثَمَانِيًا: الظُّهْرَ وَالعَصْرَ وَالمَغْرِبَ وَالعِشَاءَ "، قَالَ أَيُّوبُ: لَعَلَّهُ فِي لَيْلَةٍ مَطِيرَةٍ، (صحیح البخاری: باب تاخیر الظھر الی العصر۔ ج۱ص۷۷)

’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے مدینہ منورہ میں سات اور آٹھ رکعات اکٹھی ادا فرمائیں، یعنی ظہر اور عصر، مغرب اور عشاء۔ ایوب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں غالباً اس رات بارش تھی۔‘‘

اس حدیث میں جمع صوری کا ذکر ہے۔

وضاحت:

سفر میں سنن رواتب، نماز تہجد اور دیگر نوافل اگر کوئی پڑھنا چاہے تو پڑھ سکتا ہے، تاہم فجر کی سنتیں اور نماز وتر کا ترک جائز نہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:

رَكْعَتَانِ لَمْ يَكُنْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَعُهُمَا سِرًّا وَلاَ عَلاَنِيَةً: رَكْعَتَانِ قَبْلَ صَلاَةِ الصُّبْحِ، وَرَكْعَتَانِ بَعْدَ العَصْرِ۔ (صحیح البخاری: بَابٌ: مَا يُصَلَّى بَعْدَ العَصْرِ مِنَ الفَوَائِتِ ج۱ص۸۳)

’’رسول اللہﷺ دو رکعتیں کبھی نہیں چھوڑتے تھے نہ پوشیدہ اور نہ ظاہر میں دو رکعتیں فجر کی فرضوں سے پہلے اور دو رکعتیں عصر کی نماز کے بعد۔‘‘

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

قال کان النبیﷺ کَانَ یُوتِرپ عَلَی البعیر۔ (بخاری: باب الوتر فی السفر ج۱ص۱۳۶)

کہ رسول اللہﷺ سفر میں نفل نماز سواری پر پڑھ لیتے تھے اور وتر نماز اونٹ پر پڑھ لیتے تھے۔ ان دونوں احادیث صحیحہ سے ثابت ہوا کہ سفر میں فجر کی سنتیں اور وتر پڑھنے ضروری ہیں۔ ان دونوں کا ترک سفروحضر میں جائز نہیں۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص522

محدث فتویٰ

تبصرے