السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا رات کی آخری نماز وتر ہے اور وتر کے بعد کوئی نماز نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
واضح ہو کہ اس صورت میں اختلاف ہے۔ حضرت عثمان بن عفان، حضرت سعد بن مالک، حضرت عبداللہ بن عمر، حضرت عروہ رضی اللہ عنہم اور ایک روایت کے مطابق حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عمل تو یہ ہے کہ عشاء کے بعد پڑھے گئے وتروں کو توڑ کر شفع بنایا جائے اور پھر نماز تہجد کے بعد دوبارہ پڑھے جائیں، مگر حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ، عمار بن یاسر، حضرت ابو ہریرہ، حضرت رافع بن خدیج اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہم عشاء کے ساتھ پڑھے گئے وتروں کو توڑے بغیر نماز تہجد کے قائل ہیں۔
اور یہ بات صحیح بھی ہے کیونکہ رسول اللہﷺ سے صحیح حدیثوں میں مروی ہے کہ آپ نے وتروں کے بعد نفل پڑھے ہیں:
قَالَتْ عائشة «كَانَ يُصَلِّي ثَلَاثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً، يُصَلِّي ثَمَانَ رَكَعَاتٍ، ثُمَّ يُوتِرُ، ثُمَّ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ۔ (صحیح مسلم: باب صلاة اللیل وعدد رکعات النبی ص۲۰۴ج۱)
’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپﷺ تیرہ رکعت تہجد پڑھتے، پہلے آٹھ نفل پڑھتے اور پھر وتر پڑھتے اور بعد ازاں بیٹھ کر دو نفل ادا کرتے۔‘‘
۲۔ عَن أُمِّ سَلمۃَ أَن النبیﷺ کَانَ یُصَلِی بَعد الوِترِ رَکعَتَینِ۔
وقد روی نحو ھذا عن أبی اقامة وعائشة وغیر واحد عن النبیﷺ۔ (تحفة الأحوذی: ص۳۴۵ج۱ باب ماجاء لاوت فی لیلة۔)
’’حضرت ام سلمہ سے مروی ہے کہ حضرت نبیﷺ وتروں کے بعد دو نفل پڑھتے تھے۔‘‘ حضرت ابو امامہ، حضرت عائشہ اور متعدد صحابہ رضی اللہ عنہم سے بھی اسی طرح مروی ہے۔
۳۔ عَنْ قَیسِ بن طَلقِ بن عَلِیٍّ عَنْ أَبِیه قَالَ سَمِعتُ رسول اللہﷺ یَقپولُ لاوتران فی لیلة قال أبو عیسی ھذا حَدِیثٌ حَسَنٌ غریب۔
’’طلق بن علی رضی اللہ عنہ کہتے کہ میں نے سنا ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ایک رات میں وتر دوبار نہیں ہیں۔‘‘
امام عبدالرحمٰن مبارکپوری رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
وھذا ھوالمختار عندی ولم اجد حدیثا مرفوعا صحیحا یدل علی ثبوت نقض الوتر واللہ تعالیٰ اعلم۔ (تحفة الأحوذی: ص۳۴۵ج۱)
’’میرے نزدیک وتر توڑنے کے بارے میں مرفوع حدیث موجود نہیں۔‘‘
جہاں تک حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی صحیح حدیث:
اِجْعَلُوْا اٰخِرَ صَلٰوتِکُم بِاللَّیْلِ وِتْراً۔ (صحیح مسلم ص۲۰۷ج۱)
’’رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ وتر کو رات کی آخری نماز بناو۔‘‘
کا تعلق ہے وہ یہ ہے کہ مستحب تو یہی ہے کہ وتر رات کی آخری نماز ہونی چاہیے، تاہم یہ حدیث وتروں کے بعد نفلوں کے جواز کی نفی نہیں کرتی۔ چنانچہ امام نووی حضرت عائشہ کی حدیث پر لکھتے ہیں:
وَالصَّوَابُ أَنَّ ھَاتَیْنِ الرَّکْعَتَینِ فَعَلَھُمَاﷺ بَعْدالوِترِ جَالِساً لِبِیان جَوازِ الصلاة بعد الوِترِ۔ (نووی: ص۲۵۴ج۱)
بہرحال وتر توڑے بغیر تہجد کے نفل پڑھنے جائز ہیں۔ ہاں مواطبت جائز نہیں۔ وتر کو توڑنے والے پر بھی اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب