سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(157) کیا ایک وتر پڑھنا جائز ہے؟

  • 14261
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 3268

سوال

(157) کیا ایک وتر پڑھنا جائز ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا ایک رکعت وتر پڑھنا بھی جائز ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اگرچہ رسول اللہﷺ کا معمول مبارک تو یہی رہا کہ آپ تین وتر دو سلاموں کے ساتھ پڑھتے تھے، تاہم ایک وتر بھی جائز  ہے۔

۱۔ عن ابن عمر وابْنَ عَبَّاسٍ انھما: سَمِعْا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «الْوِتْرُ رَكْعَةٌ مِنْ آخِرِ اللَّيْلِ» (رواہ احمد ومسلم، نیل الأوطار: ج۲ص۳۳)

’’حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہا اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ان دونوں نے نبی کریمﷺ سے سنا کہ آپﷺ فرماتے تھے کہ رات کی آخری نماز ایک رکعت وتر ہے۔‘‘

۲۔ عَن ابن عمر أَنَّهُ کَانَ یُسَلِّمُ بَیْنَ الرَّکعتینِ وَالرَّکْعَة فِی الوِترِ حَتّٰی أنه کَانَ یأمُرُ بِبعضِ حَاجته۔ (رواہ البخاری، نیل الاوطار: ج۳ ص۳۳) وبخاری ج۱ ص۱۳۰ باب ما جاء فیالوتر)

’’حضرت ابن عمر دو رکعتیں پڑھ کر سلام پھیر دیتے، پھر اپنی کسی ضرورت کا حکم دیتے اور پھر ایک رکعت وتر پڑھتے۔‘‘

حافظ ابن حجر لکھتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کے اس اثر کے ظاہر سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ایک سلام کے ساتھ تین رکعت پڑھا کرتے تنے لیکن اگر کبھی حاجت درپیش ہوتی تو پھر تین وتر دو سلام کے ساتھ پڑھتے۔ اس اثر سے زیادہ واضح اثر ان کا وہ ہے جسے سعید بن منصور نے بسند صحیح روایت کیا ہے۔

عن بکر بن عبداللہ المزنی قال صلی ابن عمر رکعتین ثم قال یا غلام ارحل لنا ثم قام وأوتر برکعة

’’ابن عمر رضی اللہ عنہ نے دو رکعتیں پڑھ کر اپنے غلام کو کہا کہ سواری پر کچاوارکھو اور پھر ایک رکعت وتر پڑھا۔‘‘

۳۔ امام طحاوی حنفی ابن عمر سے روایت کرتے ہیں:

عَنْ ابْنِ عُمَرَ «أَنَّهُ كَانَ يَفْصِلُ بَيْنَ شَفْعِهِ وَوِتْرِهِ بِتَسْلِيمَةٍ، وَأَخْبَرَ أَنَّ النَّبِيَّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - كَانَ يَفْعَلُهُ» وَإِسْنَادُهُ قَوِيٌّ

’’حضرت ابن عمر اپنے شفع اور وتر میں سلام کے ساتھ فاصلہ کرتے تھے اور کہتے تھے کہ نبیﷺ بھی ایسا ہی کرتے۔‘‘

ان احادیث اور آثار صحیحہ قویہ سے ثابت ہوا کہ ایک وتر بھی پڑھنا جائز ہے۔ جمہور علماء اس طرف گئے ہیں۔ حضرات خلفائے راشدین سعد بن ابی وقاص، معاذ بن جبل، ابی بن کعب، ابو موسی اشعری، ابو درداء، حذیفہ، ابن مسعود، ابن عمر، ابن عباس، معاویہ، تمیم  داری، او ایوب انصاری، ابو ہریرہ، فضالہ بن ابی عبید بن زبیر وغیرہ رضی اللہ عنہہم اور فقہاء تابعین میں سے سالم بن عبداللہ بن عم، عبد اللہ بن عبد اللہ بن عیاش بن ابی ربیعہ، حسن بصری، محمد بن سیرین، عطاء بن ابی رباح، عقبہ بن عبد الغافر، سعید بن جبیر، نافع بن جبیر بن مطعم، جابر بن زید، زہری، ربیعہ بن ابی عبدالرحمٰن رحمہ اللہ وغیرہ ہم تابعین کرام اور ائمہ میں سے امام مالک، شافعی، احمد، اوزاعی، اسحاق بن راہویہ، ابو ثور، داؤد اور ابن حزم رحمہم اللہ یہ سب صحابہ، تابعین اور ائمہ ایک رکعت وتر کے قائل ہیں۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص505

محدث فتویٰ

تبصرے