سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(154) نا بالغ حافظ قرآن کا صف اوّل میں کھڑا ہونا؟

  • 14258
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1888

سوال

(154) نا بالغ حافظ قرآن کا صف اوّل میں کھڑا ہونا؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کی فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ حدیث میں ہے کہ پہلے مردوں، پھر بچوں اور پھر عورتوں کی صف ہو۔ ہماری مسجد میں نماز تراویح کے امام صاحب کے سامع حافظ صاحب نابالغ بچے ہیں، کیا وہ پہلی صف میں سماعت کے لئے کھڑے ہو سکتے ہیں؟ (سائل: محمد عبدالصمد، شاہدرہ لاہور)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نابالغ حافظ قرآن بحثیت سامع پہلی صف میں کھڑا ہو سکتا ہے۔ اور اس کا پہلی صف میں کھڑا ہونا بلا شبہ جائز ہے، جیسے نابالغ لڑکا بوقت ضرورت امامت کرا سکتا ہے ایسے ہی وہ بحثیت سامع پہلی صف میں کھڑا ہونا بلا شبہ جائز ہے، جیسے نابلغ کا بوقت ضرورت امامت کرا سکتا ہے ایسے ہی وہ بحثیت سامع پہلی صف میں بھی کھڑا ہو سکتا ہے۔ صحیح بخاری باب مقام النبیﷺ بمکۃ من الفتح کے ذیلی باب میں حضرت عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

عَنْ عَمْرِو بْنِ سَلَمَةَ، قَالَ: قَالَ لِي أَبُو قِلاَبَةَ: أَلاَ تَلْقَاهُ فَتَسْأَلَهُ؟ قَالَ فَلَقِيتُهُ فَسَأَلْتُهُ فَقَالَ: كُنَّا بِمَاءٍ مَمَرَّ النَّاسِ، وَكَانَ يَمُرُّ بِنَا الرُّكْبَانُ فَنَسْأَلُهُمْ: مَا لِلنَّاسِ، مَا لِلنَّاسِ؟ [ص:151] مَا هَذَا الرَّجُلُ؟ فَيَقُولُونَ: يَزْعُمُ أَنَّ اللَّهَ أَرْسَلَهُ، أَوْحَى إِلَيْهِ، أَوْ: أَوْحَى اللَّهُ بِكَذَا، فَكُنْتُ أَحْفَظُ ذَلِكَ الكَلاَمَ، وَكَأَنَّمَا يُقَرُّ فِي صَدْرِي، وَكَانَتِ العَرَبُ تَلَوَّمُ بِإِسْلاَمِهِمُ الفَتْحَ، فَيَقُولُونَ: اتْرُكُوهُ وَقَوْمَهُ، فَإِنَّهُ إِنْ ظَهَرَ عَلَيْهِمْ فَهُوَ نَبِيٌّ صَادِقٌ، فَلَمَّا كَانَتْ وَقْعَةُ أَهْلِ الفَتْحِ، بَادَرَ كُلُّ قَوْمٍ بِإِسْلاَمِهِمْ، وَبَدَرَ أَبِي قَوْمِي بِإِسْلاَمِهِمْ، فَلَمَّا قَدِمَ قَالَ: جِئْتُكُمْ وَاللَّهِ مِنْ عِنْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَقًّا، فَقَالَ: «صَلُّوا صَلاَةَ كَذَا فِي حِينِ كَذَا، وَصَلُّوا صَلاَةَ كَذَا فِي حِينِ كَذَا، فَإِذَا حَضَرَتِ الصَّلاَةُ فَلْيُؤَذِّنْ أَحَدُكُمْ، وَلْيَؤُمَّكُمْ أَكْثَرُكُمْ قُرْآنًا» . فَنَظَرُوا فَلَمْ يَكُنْ أَحَدٌ أَكْثَرَ قُرْآنًا مِنِّي، لِمَا كُنْتُ أَتَلَقَّى مِنَ الرُّكْبَانِ، فَقَدَّمُونِي بَيْنَ أَيْدِيهِمْ، وَأَنَا ابْنُ سِتٍّ أَوْ سَبْعِ سِنِينَ، وَكَانَتْ عَلَيَّ بُرْدَةٌ، كُنْتُ إِذَا سَجَدْتُ تَقَلَّصَتْ عَنِّي، فَقَالَتِ امْرَأَةٌ مِنَ الحَيِّ: أَلاَ تُغَطُّوا عَنَّا اسْتَ قَارِئِكُمْ؟ فَاشْتَرَوْا فَقَطَعُوا لِي قَمِيصًا، فَمَا فَرِحْتُ بِشَيْءٍ فَرَحِي بِذَلِكَ القَمِيصِ۔ (صحیح بخاری: ج۲ص۶۱۶)

’’عمرو بن سلمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم ایک چشمہ پر لوگوں کی گزر گاہ پر آباد تھے۔ وہاں سے قافلے گزرتے، ہم ان سے پوچھتے کہ لوگوں کو کیا ہوا؟ یہ شخص (رسولﷺ) کون ہے؟ وہ جواب میں کہتے کہ یہ شخص دعوے کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو رسول بنا کر بھیجا ہے، اللہ نے اس پر وحی کی ہے۔ فلاں چیزیں وحی کی گئی ہے۔ میں لوگوں سے سن کر یہ باتیں یاد کر لیتا اور وہ گویا میرے سینے سے چمٹ جاتیں اور عرب اسلام قبول کرنے میں فتح مکہ کے منتظر تھے۔ وہ کہتے تھے اس کو اور اس کی قوم کو ان کے حال پر چھوڑ دو۔ اگر یہ ان پر غالب آ گیا تو سچا نبی ہے۔ پس جب مکہ فتح ہوا تو ہر قوم نے اسلام قبول کرنے میںجلدی کی اور میرے والد بھی میری قوم سے پہلے مسلمان ہو گیا۔ جب میرے والد رسول اللہﷺ کی خدمت سے واپس وطن لوٹے تو کہا اللہ کی قسم! میں سچے نبی کے پاس سےآیا ہوں۔ وہ نبی کہتا ہے کہ فلاں فلاں نماز فلاں فلاں وقت پڑھو۔ جب نماز کا وقت ہو جائے تو تم میں سے ایک اذان کہے اور جو قرآن مجید زیادہ پڑھا ہوا ہو۔ وہ تمہاری امامت کرائے۔ جب میری قوم نے دیھا مجھے سب سے زیادہ قرآن مجید یاد تھا کیونکہ میں نے آنے جانے والوں سے سن کر یاد کر لیا تھا۔ پس انہوں نے مجھے اپنا امام بنا لیا اور میں اس وقت چھ یا سات برس کا تھا اور مجھ پر ایک کملی تھی جب میں سجدہ کرتا تو وہ سکڑ جاتی نیچے کا بدن ننگا ہوجاتا۔ قوم میں سے ایک عورت نے کہا کہ تم لوگ اپنے امام کا ستر کیوں نہیں ڈھانکتے؟ تب میرے مقتدیوں نے کپڑا خرید کر میرے لئے قمیص تیار کی۔ میں اس سے اتنا خوش ہوا کہ اتنی خوشی مجھے کبھی نہیں ہوئی۔‘‘

اس حدیث سے ثابت ہوا کہ نابالغ لڑکا جس کو قرآن مجید زیادہ یاد ہو اور نماز پڑھنے پڑھانے کا طریقہ جانتا ہو تو اس کی امامت شرعاً جائز اور صحیح ہے۔ اور جب اس کی امامت جائز اور صحیح ہے تو اسی طرح وہ بحثیت سامع اگلی صف میں کھڑا ہو سکتا ہے۔ حالانکہ امامت کا مسئلہ بڑا اہم، حساس اور نازک ہے جب کہ ایک با تمیز حافظ بچے کا پہلی صف میں کھڑا ہونا اتنا اہم اور نازک نہیں۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص498

محدث فتویٰ

تبصرے