سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(142) تہجد باجماعت پڑھ سکتے ہیں یا نہیں؟

  • 14246
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 4244

سوال

(142) تہجد باجماعت پڑھ سکتے ہیں یا نہیں؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

تہجد کی نماز کی جماعت کراسکتے ہیں یا نہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 تہجد کی جماعت کرائی جاسکتی ہے اور اس میں قطعاً کوئی مضائقہ نہیں۔ چنانچہ بخاری میں ہے:

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: بِتُّ فِي بَيْتِ مَيْمُونَةَ لَيْلَةً، وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَهَا، لِأَنْظُرَ كَيْفَ صَلاَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِاللَّيْلِ، «فَتَحَدَّثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَ أَهْلِهِ سَاعَةً ثُمَّ رَقَدَ، فَلَمَّا كَانَ ثُلُثُ اللَّيْلِ الآخِرُ، أَوْ بَعْضُهُ، قَعَدَ فَنَظَرَ إِلَى السَّمَاءِ فَقَرَأَ» : {إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَوَاتِ وَالأَرْضِ} إِلَى قَوْلِهِ {لِأُولِي الأَلْبَابِ} [آل عمران: 190] ، «ثُمَّ قَامَ فَتَوَضَّأَ وَاسْتَنَّ، ثُمَّ صَلَّى إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً۔)مرعاة المفاتیح شرح مشکوةالمصابیح: ص۱۶۲ج۲)

’’حضرت عبد اللہ بن عباس﷠ کہتے ہیں کہ ایک رات میں اپنی خالہ میمونہ کی باری کے دن میں بھی ان کے ہاں رات کو سورہا تھا۔ رسول اللہﷺ نے تھوڑی دیر اپنی بیوی کے ساتھ کچھ باتیں کیں اور پھر محو خواب ہوگئے جب رات کا آخری تہائی حصہ یا بعض حصہ شروع ہوا تو آپ نیند سے بیدار ہوئے۔، آسمان کی طرف منہ کیا۔ اور اِنَّ فی خلق السموات والارض سے آخر تک سورۂ آل عمران کی آیات پڑھیں اور پھر چمڑے کے پرانے مشکیزے کا تسمہ کھول کر آپ نے وضو فرمایا، پھر کھڑے ہو کر تہجد کی نماز پڑھنے لگے۔ میں نے بھی اٹھ کر وضو کیا اور آپ کے بائیں جانب کھڑا ہو کر آپ کی اقتدا میں نماز پڑھنے لگا تو آپﷺ نے میرا کان پکڑ کر مجھے اپنے دائیں جانب کھڑا کر لیا۔ اس طرح آپ کی 13 رکعات تہجد ہو گئی۔‘‘

متقى الاخبار میں ہے:

وقد صح التفل جماعة من روايه ابن عباس وأنس رضى الله عنهما(نیل الاوطار:ج۲ص۸۹)

’’عبد اللہ بن عباس اور انس﷜ سے صحیح سندوں کے ساتھ تہجد کی جماعت ثابت ہے۔‘‘

امام شوکانیؒ لکھتے ہیں:

وحديث أنس المشار إليه أيضاً له ألفاظٌ كثيرةٌ في البخاري وغيرهٖ واحدها أنه قال صليت أنا ويتيم في بيتنا خلف النبيﷺ وأمي أ مٌ سليم خلفنا۔ ألأحاديث، ساقها المصنف هبنا للاستدلال بها علي صلوٰة النوافل جمعاعةٌ وهو كما ذكر وليس للمانع من ذلك متمسِّكٌ يُعارضُ بهٖ هذه الأدلة(نیل الاوطار:ص۸۹ج۲)

’’حضرت انس﷜ کی حدیث صحیح بخاری میں مختلف الفاظ میں مروی ہے ایک یہ ہے کہ میں نے اور یتیم نے اپنے گھر میں نبیﷺ کے پیچھے نفل پڑھے اور میری والدہ ام سلیم﷜ ہمارے پیچھے کھڑی تھیں۔‘‘ صاحب مثقیٰ نے باجماعت نفل نماز کے ثبوت میں جو حدیثیں بیان کی ہیں وہ اپنی جگہ صحیح ہیں اور مانعین کے پاس ان کا معارضہ کرنے کے لیے کوئی ٹھوس دلیل موجود نہیں۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص453

محدث فتویٰ

تبصرے