السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک امام مسجد نے اپنے لڑکے کی منگنی کی، لڑکا نابالغ تھا، لڑکے نے بالغ ہو کر وہ رشتہ لینے سے صاف انکار کر دیا۔ بعد ازاں لڑکے کے والد اور لڑکی کے والدین نے متفق ہو کر انکار کنندہ کے چھوٹے بھائی کے ساتھ اس لڑکی کا نکاح کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ لڑکی اور لڑکے کا چھوٹا بھائی بھی اس پر راضی ہیں۔ لیکن امام مسجد کے خلاف بعض مقتدیوں نے آواز اٹھائی ہے کہ چونکہ امام مسجد نے وعدہ خلافی کی ہے، اس لیے اس کی اقتدا میں ہماری نمازیں ادا نہیں ہو سکتیں۔ اب سوال یہ ہے کہ کیااس امام کے بڑے لڑکے کی منگیتر سے اس کے چھوٹے بھائی کا نکاح جائز ہے؟ کیا ایسے امام کی اقتدا جائز ہے؟ کتاب وسنت کی روشنی میں جواب لکھ کر عنداللہ ماجورہوں۔ (سائل: محمد بشیر چک۴۵ خانیوال)
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بشرط صحت سوال وبشر صحت تحریر واضح ہو کہ صرف نسبت اور انتخاب رشتہ (منگنی) کا نام نکاح نہیں، بلکہ نکاح شرعی عقد کا نام ہے جیسا کہ فتح الباری شرح البخاری کتاب النکاح کے عین آغاز میں امام ابن حجر عسقلانیؒ رقمطراز ہیں:
وَفِي الشَّرْعِ حَقِيقَةٌ فِي الْعَقْدِ مَجَازٌ فِي الْوَطْءِ عَلَى الصَّحِيحِ وَالْحُجَّةُ فِي ذَلِكَ كَثْرَةُ وُرُودِهِ فِي الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ الخ۔ (ص۱۴ج۹طبع م)
نکاح کے لغوی معنی بیان کرنے کے بعد امام ابن حجرؒ فرماتے ہیں کہ شریعت محمدی (علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام) میں نکاح کا اصل اور صحیح معنی عقد ہے۔ اور اس سے وطی (جماع) مراد لینا مجاز ہے۔ اور شرعی عقد وہ ہوتا ہے جو مہر کی تعیین کے ساتھ دو عادی گواہوں کی موجودگی میں ولی مرشد کی اجازت کے بعد ایجاب وقبول کے ساتھ منعقد ہوتا ہے۔ کیونکہ ایجاب وقبول نکاح شرعی کے رکن ہیں اور نکاح شرعی کی حقیقت میں شامل ہیں، اگر یہ نہ ہوں تو شرعی نکاح منعقد ہی نہیں ہوتا۔
چنانچہ ہدایہ اولین شروع کتاب النکاح میں فقیہ مرغینانی لکھتے ہیں:
النکاح ینعقدبالایجاب والقبول بلفظین یعبربھما عن الماضی لأن الصیغة وإن کانت لأخبار وُضعا فقد جعلت للانشاء شرعا دفعا للحاجة۔ (ھداية: کتاب ص۲۸۵ج۱)
اور شرح وقایہ میں ہے:
ھو عقد موضوع للملک المتعة ای حل إستمتاع الرجل من المرأة فالعقد ھو ربط أجزاء التصرف ای الایجاب والقبول شرعا۔ انما قلنا ھذا لأن الشرع یعتبر الایجاب والقبول أرکان عقد النکاح لا امور خارجية کالشرائط۔ (شرح وقاية: ص۴ربع ثانی)
ان دو عبارتوں کا خلاصہ مطلب یہ ہے یکہ نکاح ایک ایسا عقد ہے جس کے ذریعہ عورت سے حاصل ہونے والا نفع مرد کے لیے حلال ہوجاتا ہے۔ اور یہ عقد ایجاب وقبول کے ساتھ منعقد ہوتا ہے کیونکہ شرعی طور پر ایجاب وقبول نکاح کے رکن ہیں جو شرائط کی طرح نکاح کی حقیقت سے خارج نہیں ہوتے۔
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ ایسی منگنی (انتخاب رشتہ) جس میں دو عادل گواہوں ی موجودگی میں ولی کی اجازت کے ساتھ ایجاب وقبو نہ ہو، محض انتخاب اور وعدہ ہی وعدہ ہے، نکاح شرعی کے حکم میں ہرگز نہیں ہوتی۔ بنا بریں بڑے بھائی نے اپنی منگیتر کے ساتھ نکاح کرنے سے صاف انکار کر دیا ہے: جیسا کہ سوال میں یہ الفاظ واضح طور پر موجود ہیں، تو ایسی صورت میں اس انکار کنندہ کے چھوٹے بھائی کے ساتھ اس لڑکی کا نکاح بلاشبہ جائز ہے اوریہ نکاح شرعی نکاح ہوگا۔ یعنی اس میں شرعاً کوئی قباحت نہیں۔
ہاں انکار کنندہ صرف وعدہ خلافی کی وجہ سے کبیرہ کناہ کا مرتکب ہوا ہے بلکہ وہ ظالم بھی ہے۔ کیونکہ اس نے ایک لڑکی کو بلا وجہ معاشرہ میں پریشان کیا ہے۔ بشربیکہ اس کے انکار کی کوئی معقول وجہ نہ ہو۔
جہاں تک انکار کنندہ کے والد (امام صاحب) پر وعدہ خلافی کا الزام ہے وہ کچھ صحیح معلوم نہیں ہوتا کیونکہ سوال کی عبارت میں یہ الفاظ موجود ہیں کہ لڑکے کے والد اور لڑکی کے والدین نے متفق ہو کر انکار کنندہ کے چھوٹے بھائی کے ساتھ اس لڑکی کا نکاح کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور لڑکا اور لڑکی بھی راضی ہیں۔ اس سے یہی متبادرہوتاہے کہ لڑکی کے والدین کو س بات کا قطعی یقین ہو چکا ہے کہ انکار کنندہ کا والد اپنے لڑکے کے اقدام میں شریک نہیں۔ ورنہ لڑکی کے والدین اس کے ساتھ اتفاق کر کے اس کے چھوٹے لڑکے کو رشتہ دینے کے لیے تیار نہ ہوتے اور نہ لڑکی ایسا کرنے کی اجازت دیتی۔
بہرحال طرفین کا یہ باہمی سمجھوتہ اور مصالحت ازخود اس بات کا مکمل ثبوت ہے کہ باپ اپنےبیٹے کے اس غلط اقدام پر سخت ناراض ہے، واللہ اعلم بالصواب
اب اگرمقتدیوں نے وعدہ خلافی کے مرتکب کے خلاف تادیبی کاروائی کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے تو انہیں چاہیے کہ وہ اس امام مسجد کے بیٹے کا محاسبہ کریں نہ کہ اس کے والد کو مورد الزام ٹھہرا کر پریشان کیا جائے، اس کا کوئی شرعی جواز نہیں کیونکہ شریعت نے بے گناہوں کو سزا دینے سے منع کر دیا ہے۔
عن ابن عباس قال قال رسول اللہﷺ لا یَقَامُ الْحُدُوْدُ فِیْ الْمَسَاجِدِ وَلا یُقَادُ بِالولد الوالد۔ (رواه الترمذی الدارمی، مشکوة:ص۳،۱ج۲)
’’حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: نہ تو مسجدوں میں حدیں لگائی جائیں اور نہ بیٹے کے جرم کا قصاص باپ سے لیا جائے۔‘‘
عن ابی رمثة قال أتیت رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مع أبی فقال من ھذاالذی معک قَالَ: ابْنِي، أَشْهَدُ بِهِ، قَالَ: «أَمَا إِنَّهُ لَا يَجْنِي عَلَيْكَ، وَلَا تَجْنِي عَلَيْهِ» (رواه ابو داؤد والنسائی، مشکوة: ص۳۰۱ج۲)
’’جناب ابو رمشہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد کی معیت میں رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ نے میرے والد سے دریافت کیا کہ یہ بچہ کون ہے؟ میرے والد نے جواب میں کہا کہ یہ میرا لڑکا ہے، آپ گواہ رہیں۔ اس پر آپ نے فرمایا: آغاہ رہ کہ تیرے بیٹے کے جرم کی سزا تجھے نہیں دی جائے گی اور تیرے جرم کی سزا تیرے بیٹے کو نہیں دی جائے گی۔‘‘ (جیسا کہ زمانہ جاہلیت کا غلط رواج تھا۔)
لہٰذا اگر بعض نمازیوں نے وعدہ خلافی کے مرتکب کے خلاف محاسبہ شروع کیا ہے تو وہ امام صاحب کے باغی لڑکے کا کریں نہ کہ اس بےچارے امام کا جو کہ مجبور معلوم ہوتا ہے جہاں تک اس امام کی اقتدا میں نماز کی ادائیگی کا سوال ہے تو واضح رہے کہ امام ایسا ہونا چاہیے جو عالم باعمل اور صحیح العقیدہ مسلمان ہو۔ مشکوٰۃ شریف میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ :
قال رسول اللہﷺ الصلوة واجبة عَلَیکُمْ خَلْفَ کُلِّ مُسْلِمٍ بَرًّا أَوْ کَانَ فَاجرا وإن عَمِلَ الْکَبَائِرَ۔ (رواه ابو داؤد، مشکوة: ص۱۰۰ج۱)
’’رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ہر برے بھلے امام کی اقتدا میں نماز پڑھ لینی چاہیے۔‘‘ (ہاں ایسے آدمی کو امام مقرر کرنا جائز نہیں)
تاہم یہ امام صاحب تو بے گناہ نظر آتے ہیں اس لیے ان کے پیچھے نماز ان شاءاللہ جائز ہوگی۔
محض منگنی سے نکاح شرعی منعقد نہیں ہوتا۔ اس لیے انکار کنندہ کے چھوٹے بھائی کے ساتھ اس لڑکی کا نکاح جائز ہے اور یہ نکاح بالکل شرعی نکاح ہوگا۔ جہاں تک وعدہ خلافی کا تعلق ہے تو امام صاحب اس سے بری معلوم ہوتے ہیں اور ان کے پیچھے نماز جائز ہے، بشرطیکہ کوئی شرعی عذر نہ ہو۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب