سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(128) تنخواہ دار امام کی امامت کا حکم

  • 14231
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 3651

سوال

(128) تنخواہ دار امام کی امامت کا حکم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا فرماتے ہیں علمائے دین کہ ایک شخص جو مسجد کا امام ہے وہ کہتا ہے کہ میں فلاں مسجد میں اس شر ط پر نماز پڑھاؤں گا یا خطبہ دوں گا کہ اگر منہ مانگے دام دیے جائیں گے۔ مسجد کے مقتدی اسے ڈیڑھ ہزار روپے دیتے ہیں جب کہ امام صاحب کہتے ہیں میں پانچ ہزار لوں گا بعد میں وہ ڈھائی ہزار پر رضا مند ہوا۔ شرعاً کیا یہ جائز ہے کہ کوئی امام منہ مانگے دام لے، اس بارے میں قرآن وسنت کی رو سے فتویٰ صادر فرمائیں۔ (سائل: حافظ محمد حیات)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بشرط صحت سوال صورت مسئولہ واضح ہو کہ اگرچہ امامت اور خطابت کے منصب رفیع پر فائز ہونے والے امام اور خطیب کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ امامت اور خطابت کا نرخ اور مقرر کر کے منہ مانگے دام وصول کرے، یعنی تقویٰ یہ ہے کہ وہ فی سبیل اللہ اور متوکل علی اللہ کا پیدر بن کر امامت اور خطابت کے فرائض سرانجام دے اور مقتدی حضرات لوجہ اللہ اس کی مکمل کفالت اپنے ذمہ لیں۔ قرون سلف میں یہی طریقہ تبلیغ دین رہا اور اگر کسی مسجد کا بیت المال ہو تو پھر تنخواہ طے کر لینے میں کوئی حرج نہیں، جیسا کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد سعادت میں مؤذن اور ائمہ مساجد کے وظیفے مقرر کر دیے تھے تاکہ فکر معاش سے فارغ ہو کر اپنے فرائض سرانجام دے سکیں۔

علامہ شبلی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ ہر شہر وقصبہ میں امام ومؤذن مقرر کئے اور بیت المال سے ان کی تنخواہ مقرر کیں۔ امام ابن جوزی سیرۃ العمر میں لکھتے ہیں:

أن عمر بن الخطاب وعثمان بن عفان کَانَا یَرْزُقَان المُؤذنین والائمة۔ (الفاروق: ص۲۷۴)

حضرت عمر فاروق اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہما کے اس فیصلے سے ثابت ہوا کہ مؤذن اور امام کی تنخواہ مقرر لینا بھی جائز ہے۔ چونکہ ان کا یہ عمل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی  موجودگی میں رواج پا چکا تھا اور کسی صحابہ نے ان کے اس فیصلہ پر اعتراض بھی نہیں کیا۔ لہٰذا ثابت ہوا کہ اس پر صحابہ کا اجماع سکوتی ہوچکا ہے۔ جو تنخواہ تعین کرنے کے جواز کی قوی دلیل ہے۔ مزید برآں ((إِنَّ احَق مَا أَخَذتُم عَليه أجْراً کتاب اللہ)) (صحیح البخاری ج۱ص۳۰۴) صحیح حدیث بھی اس کے جواز کی دلیل ہے۔ بہر حال تنخواہ مقرر کر کے امامت اور خطابت کرنا جائز ہے۔ واللہ اعلم بالصواب

رہا یہ کہ وہ دو جگہ خطبہ دیتا ہے تو اس کا یہ کام خالص دنیوی کاروبار کی نوعیت کا حامل ہے جو یقیناً جائز نہیں کہ سلف صالحین یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تابعین اور تبع تابعین کے عہد میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ ایسا حریص، لالچی اور دنیا دار شخص خطابت کے منصب رفیع کے لائق نہیں۔ حدیث میں ہے ((إِجعلُوا أئمتکم خیارکم))

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص425

محدث فتویٰ

تبصرے