سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(125) ایک قاری کا دوبارہ جماعت کروانا

  • 14228
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1258

سوال

(125) ایک قاری کا دوبارہ جماعت کروانا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک عالم دین کی اقتدا میں نماز ادا کرنے کے بعد ایک قاری جو خود بھی اس عالم کی اقتدا میں نماز ادا کرچکے ہیں۔ غلط قراءت کی بنا پر انہوں نے فرمایا کہ ہماری نماز نہیں ہوئی۔ اور انہوں نے نماز کے لیے دوبارہ جماعت کرائی۔ کچھ لوگ بھی ان کے ساتھ شامل ہوگئے۔ کیا ایسا کرنا جائز ہے؟ ان کی دوبارہ نماز ادا کرنے کی کیا حیثیت ہے؟ اور جنہوں نے دوبارہ ادا نہیں کی ان کی نماز کی کیا حیثیت ہوگی؟ (سائل: حافظ محمد اسمٰعیل نیو ملتان مشتاق کالونی ملتان شہر)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَنَحْنُ نَقْرَأُ الْقُرْآنَ وَفِينَا الْأَعْرَابِيُّ وَالْأَعْجَمِيُّ، فَقَالَ: «اقْرَءُوا فَكُلٌّ حَسَنٌ وَسَيَجِيءُ أَقْوَامٌ يُقِيمُونَهُ كَمَا يُقَامُ الْقِدْحُ يَتَعَجَّلُونَهُ وَلَا يَتَأَجَّلُونَهُ»

رواه ابو داؤد والبیھقی فی شعب الایمان وسکت عليه ابو داؤد فھو صالح عنده وأخرجه أیضا أحمد وابن النجار وفی الباب عن سھل بن سعد الساعدی عند احمد وابی داؤد وابن حبان والطبرانی فی الکبیر والبیھقی فی شعب الایمان وسیعید بن منصور فی سنته وعبد بن حمید وعن انس عند احمد وتعدد الطرق یشد بعضھا بعضا۔ (تنقیح الرواة: ج۲ص۶۱ومشکوة ص۱۹۱)

’’حضرت جابر سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ ہمارے پاس تشریف لائے اور ہم اس وقت قرآن پڑھ رہے تھے۔ ہم میں کچھ گنوار عجمی لوگ بھی تھے، آپ ہمارا قرآن سنتے رہے، پھر فرمایا پڑھو پڑھو، تم سب ٹھیک پڑھ رہے ہو۔ عنقریب ایک ایسی قوم آئے گی جو اس قرآن کو اس طرح سیدھا کرے گی جیسے تیرسیدھا کیاجاتا ہے۔ وہ اس کا معاوضہ دنیا ہی میں وصول کریں گے اور آخرت کے ثواب کو نظر انداز کر دیں گے۔‘‘ تعدد طرق کی وجہ سے یہ حدیث قوی ہے۔

اس قوی حدیث سے معلوم ہوا کہ قرآن مجید کو صرف عربی لب ولہجہ میں پڑھنا ضروری نہیں۔ بلکہ جس طرح بھی کوئی پڑھ سکے پڑھے۔ قرآن مجید کے نزول کا اصل مقصد نصیحت اور عبرت حاصل کرنا ہے نہ کہ صرف عربی اور تجوید کی پابندی کے ساتھ ادائیگی۔ اگر کوئی شخص عجمی انداز میں یا پھر آج کل مجودین کی اصطلاح میں مجہول قراءت میں قرآن مجید پڑھ رہا ہو اور خشیت الٰہی اس کے روئیں، روئیں سے ظاہر ہو تو وہ بھی اس ڈاڑھی تراشنے والے قاری سے ہزار درجے بہتر ہے۔ جو قرآن تو بڑا اچھے لہجہ میں پڑھے لیکن اس کے دل میں اللہ تعالیٰ کا خود اور سنت کی محبت نہ ہواور ظاہر ہے کہ دیہاتی اور عجمی لوگ قرآن مجید کو عربی لب ولہجہ میں نہیں پڑھ سکتے۔ بایں اس حقیقت کو جانتے ہوئے رسول اللہﷺ نے سب کی قراءت اور تلاوت پر فکل حسن فرما کر مہر ثبت فرما دی۔ اگرچہ تلاوت کے وقت مخارج حروف اور ان کی صفات کا خیال رکھنا ایک حد تک ضروری ہے تاہم تجوید میں ایسا تکلف جس سے آنکھ، ناک، کان ٹیڑھا ہوجائے اورگردن کی رگیں پھول جائیں بدعت ہے۔ اللہ تعالیٰ ایسی حالت سے محفوظ رکھے۔ آمین

وقال العلامة السید احمد حسن المحدث الدھلوی قوله ویقیمونه ای یصلحون الفاظه وکلماته ویتکلفون مراعاة مخارجه وصفاته وفی الحدیث رفع الحرج وبناء الامر علی المساھلة فی الظاھر وتحریر الحسبة والإخلاص فی العمل والتفکر فی معانی القرآن والغوص فی عجائب امرھم۔ قاله الطیبی۔ (سنح الرواة: ج۲ص۶۱)

’’رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ بعد میں یک ایسی قوم آئے گی کہ ان کا سارا زور الفاظ اور کلمات کی درستگی پر صرف ہوگا۔ حروف کے مخارج اور ان کی صفات پر خوب تکلف کریں گے۔‘‘ اس حدیث کے ظاہر کے مطابق تلاوت قرآن کے وقت عربی ہب ولہجہ کی رعایت ضروری ہے اور نہ ہی مروجہ فن تجوید کی پابندی ضروری قرار دی گئی ہے بلکہ تلاوت قرآن میں نیک نیتی، اخلاص اور قرآن کے معانی اور اس کے عجائب پر غوروفکر ضروری ہے تاکہ قرآن مجید کے نزول کا اصل مقصد نغموں اور تکلفات کی بھول بھلیوں میں نہ کھو جائے۔ خلاصہ یہ کہ سادہ قرآن پڑھنے والے امام کی اقتدا میں نماز پڑھنا جائز اور درست ہے۔

غلط قراءت دو طرح سے ہو سکتی ہے: ایک تو قاری کا لہجہ درست نہ ہو تاہم الفاظ میں تبدیلی سے بچنے کی مقدور بھی کوشش کرتا ہو تو ایسی قراءت شرعاً قابل قبول اور ایسے امام کی اقتدا میں نماز جائز ہے۔ دوسری یہ کہ الفاظ میں تبدیلی واقع ہو جائے اور وہ اس تبدیلی کی پروا نہ کرے۔ تو ایسے غیر محتاط امام کی اقتدا جائز نہیں۔ مگر ہماری دانست کے مطابق کوئی عالم دین جان بوجھ کر ایسی غلطی ہرگز نہیں کرتا۔ جس میں تحریف لفظی کا ارتکاب لازم آتا ہو۔ اور قرآن مجید پڑھنے والے عالم دین کو چھوڑ کر ڈاڑھی تراش قاری کی اقتدا میں نماز پڑھنا بوجوہ جائز نہیں۔

اول اس لیے کہ اگرچہ قرآن مجید کو درست پڑھنے میں کوتاہی کرنا گناہ ہے، مگر ڈاڑھی تراشنا بالخصوص قبضہ بھر سے چھوٹی ڈاڑھی رکھنا ایسا کبیرہ گناہ ہے جو مروجہ فن تجوید کے مطابق قرآن نہ پڑھنے کے گناہ کے مقابلہ میں کئی گنا بڑا گناہ ہے کہ وہ اپنے طرز عمل میں یہود نصاریٰ کے ساتھ مشابہت کئے ہوئے ہے جب کہ یہود نصاریٰ مخالفت کرنا شرعاً فرض عین ہے۔

ثانی اس لیے کہ کوئی عالم دین، خواہ کتنا بھی بے عمل اور غیر محتاط ہو کر جان بوجھ کر قرآن مجید غلط پڑھنے کی جسارت نہیں کرتا۔ اگر تلاوت میں اس سے غلطی ہوجائے تو جب اس کی غلطی پر آگاہ کیاجاتا ہے تو وہ اس غلطی کو درست کرنے کی کوشش بھی کرتا ہے، یعنی وہ اپنی غلطی پر مصر نہیں ہوتا۔ اور معلوم ہے کہ غلطی پر اصرار نہ کرنے والا طغیان وعدوان کی ہلاکت خیز وادی میں داخل ہونے سے بچ جاتا ہے جب کہ ڈاڑھ تراشنا سنت سے سراسر عدوان اور طغیان ہے اور تجاوز عن حدوداللہ ہے جو یہ شرعاً ناقابل برداشت ہے۔ اور تِلْکَ حُدُوْدُاللہ فَلَا تَعْتَدُوْھَا کے علی الرغم حدود اللہ کو پھلانگنے والا امامت کا اہل ہرگز نہیں۔

ثالث اس لیے کہ اگرچہ قرآن مجید کو درست پڑھنا ضروری ہے۔ مگر صحت لفظی اور مروجہ فن تجوید کی نری پابندی اسلام کا شعار (امتیازی نشان) ہرگز نہیں۔ ورنہ رسول اللہﷺ فن تجوید وقراءت سے اناڑی، گنواروں اور عجمی لوگوں کی سادی قراءت کو فکل حسن فرما کر برداشت ہرگز نہ کرتے۔ بلکہ ان کو حکم دیتے کہ تم ایسے ایسے پڑھو۔ ملاحظہ ہو حضرت جابر کی مذکورہ بالا حدیث۔ جبکہ ڈاڑھی بلا شبہ شعار اسلام میں سے ہے۔ امامت بہت بڑا اہم اور نازک منصب ہے کہ رسول اللہﷺ نے ایک پیش امام کو منصب امامت سے محض اس لیے ہٹا دیا تھا کہ اس نے قبلہ کی جانب تھوک دیا تھا۔ پس ایسی صورت حال میں داڑھی تراشنےوالے قاری صاحب کی اقتدا میں نماز کیسے درست ہوسکتی ہے۔ ہاں، اگر وہ پہلے سے کسی جگہ امام مقرر ہوتو اس کی اقتدا میں اتفاقاً نماز پڑھنا درست ہے مگر اپنے اختیار سے ازسرنو اس کو پیش امام مقرر کرنا جائز نہیں۔ جزاك اللہ حرصا فی الدین

جواب نمبر ۳: غلط قراءت کا بہانہ لے کر اس قاری صاحب کا نماز کے لیے دوبارہ جماعت کرانا فتنہ پردازی اور جماعت کے اتحاد اور شیرازہ میں خلل اندازی کے حکم میں ہے۔ جو کہ ہرگز جائز نہیں۔ بالفاظ دیگر مقرر شدہ پیش امام کو چیلنج کرنا کسی طرح جائز نہیں۔ اس لیے ان قاری صاحب کو چاہیے کہ وہ اپنی بے محابا غلطی اور گستاخی پر معذرت کریں اور آئندہ ایسی غلطی کا اعادہ نہ کریں۔ ورنہ شرعاً فتنہ پرداز قرار پائیں گے۔ اور جن بعض لوگوں نے اس قاری صاحب کی اقتدا میں نماز کاا عادہ کیا ہے وہ بھی گناہ گار ہیں۔ وہ بھی اس عالم دین سے معافی مانگیں ورنہ وہ بھی مجرم ہیں وحسابھم علی اللہ اور جن لوگوں نے اس قاری صاحب کی اقتدا میں نماز نہیں دہرائی۔ انہون نے بلا شبہ درست کیا اور وہ اس فتنہ سے محفوظ رہے۔ اور ان کی نماز بھی ان شاء اللہ ادا ہو چکی۔ لعل فيه کفاية لمن له ادنی دراية

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص419

محدث فتویٰ

تبصرے