سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(122) نا بالغ لڑکے کی امامت

  • 14225
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1130

سوال

(122) نا بالغ لڑکے کی امامت

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا نابالغ لڑکا امامت کے فرائض سرانجام دےسکتا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جب بالغ مردوں میں کوئی شخص جماعت کرانے کا اہل نہ ہو اور نابالغ لڑکا صاحب تمیز موجود ہوتو ایسی صورت میں وہ نابالغ لڑکا جماعت کے فرائض سرانجام دےسکتا ہے، جیسا کہ صحیح بخاری، ابوداؤد، نسائی، مسند امام احمد بن حنبل میں حضرت عمر بن سلمہ رضی اللہ عنہ سے جماعت کرانا ثابت ہے، حالانکہ وہ بخاری کی روایت کے مطابق چھ یا سات سال کے تھے اور ابو داؤد کی روایت کے مطابق وہ سات یا آٹھ برس کے تھے۔

عمر بن سلمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمارا قبیلہ ایک ایسے راستہ پر آباد تھا جہاں سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا گزر ہوتا رہتاتھا۔ میں ان سے قرآن سیکھتا رہتا تھا، آخر میرے والد جب مسلمان ہوگئےاور انہوں نے کہا: رسول اللہﷺ اللہﷺ نےفرمایا کہ رات دن میں پانچ نمازیں پڑھنی ہیں۔ نماز کے وقت کوئی صاحب اذان پڑھے، تاہم جماعت وہ شخص کرائے جو دوسروں کے مقابلہ میں زیادہ عالم ہو۔ میں چونکہ اپنے قبیلے میں سب سےزیادہ قرآن پڑھاہوا تھا۔ لہٰذا میری قوم نے مجھے اپنا پیش امام بنالیا۔ چنانچہ میں آج تک ان کا امام چلاآرہا ہوں۔ چونکہ میں سات سال کے لگ بھگ تھا۔ میرے گلے میں صرف ایک قمیص ہوتی تھی۔ جب میں سجدہ میں جاتا تو ننگا ہوجاتا تھا۔ تب میری قول نے مجھے کپڑے بنا کر دیے۔ الفاط یہ ہیں:

فَنَظَرُوا فَلَمْ يَكُنْ أَحَدٌ أَكْثَرَ قُرْآنًا مِنِّي، لِمَا كُنْتُ أَتَلَقَّى مِنَ الرُّكْبَانِ، فَقَدَّمُونِي بَيْنَ أَيْدِيهِمْ، وَأَنَا ابْنُ سِتٍّ أَوْ سَبْعِ سِنِينَ، (رواه البخاری والنسائی بنحوه۔) قال فیہ کنت اءمھم وانا ابن سبع سنین او ثمان سنین۔(ابوداؤد)وَلِأَحْمَدَ وَأَبِي دَاوُد: فَمَا شَهِدْتُ مَجْمَعًا مِنْ جَرْمٍ إلَّا كُنْتُ إمَامَهُمْ إلَى يَوْمِي هَذَا) (نیل الأوطار: باب ما جاء فی امامة الصبی ص۱۸۷ج۳)

اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ جب نابالغ لڑکا دوسرے بڑے افراد کے مقابلہ میں زیادہ عالم ہو اور پھر وہ صاحب تمیز بھی ہو توبلاشبہ اس کی امامت جائز ہے۔

ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص413

محدث فتویٰ

تبصرے