السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرح متین کہ آج کل نمازی حضرات عموماً عمامہ، ٹوپی اور رومال اتار کر ایک جانب رکھ دیتے ہیں اور ننگے سر نماز پڑھتے ہیں اور اس عادت کو سنت سمجھتے ہیں۔ ان کا یہ کہنا کہاں تک درست ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نماز میں ستر مغلظ (شرم گاہ) کا ڈھانپنا بالاتفاق ضروری ہے۔ ان میں سے اگر کوئی حصہ برہنہ ہوگا تو نماز نہیں ہوگی کہ ان اعضا کا برہنہ رکھنا شرعاً حرام ہے۔ حضرت بہز بن حکیم سے روایت ہے:
قال رسول اللہﷺ إِحْفَظ عَورتَکَ إِلا مِن زَوجَتِک أو ما مَلَکتْ یَمِیْنُکَ۔ (فتاویٰ اھل حدیث: ص۷۶ج۲)
’’رسول اللہﷺ نے فرمایا اپنی بیوی اور لونڈی کے سوا کسی کو اپنے اعضائے ستر(شرمگاہ) کو دیکھنے کا موقع نہ دے۔‘‘
امام محمد بن الشوکانی ارقام فرماتے ہیں:
وَالْحَقُّ۔ وُجُوْبُ سَتْرِ الْعَورة فِی جَمیع الأوقات إِلا قَضَاءِ الْحَاجة وإفضَاء الرجل إلی أھله۔ (نیل الاوطار: ج۲ص۶۸)
’’حق بات یہ ہے کہ سوائے قضائے حاجت اور بیوی کے ساتھ ملاپ کے وقت کے باقی تمام اوقات میں شرمگاہ کو ڈھانپنا فرض ہے۔‘‘
ایک روایت کے مطابق امام احمد اور امام مالک کے نزدیک العورة القبل والدبر۔ (نیل الاوطار: ج۲ص۷۰)کہ اعضائے ستر صرف قبل اور دبرہے۔ غرضیکہ ستر کی جو حد بھی ہو اگر اس کو برہنہ رکھا جائے تو نماز نہ ہوگی۔ اعضائے ستر کو ویسے بھی کھلا رکھنا درست نہیں،نماز میں قطعاً ناجائز اور حرام ہے۔ سر چونکہ بالاتفاق اعضائے ستر میں شامل نہیں۔ اس لیے اگر کسی وقت ننگے سر نماز پڑھی جائے تو بالاتفاق جائز ہوگی۔ جس طرح کسی شخص کی پنڈلی، پیٹ اور پشت وغیرہ برہنہ ہوں تو اس حالت میں اس کی نماز جائز ہے،اسی طرح ننگے سر بھی نماز بلا شبہ درست ہے۔ تاہم اس عادت کو سنت سمجھنے والے درج ذیل احادیث سے استدلال کرتے ہیں:
(۱)عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ، «أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى فِي ثَوْبٍ وَاحِدٍ قَدْ خَالَفَ بَيْنَ طَرَفَيْهِ» (صحیح البخاری: ج۱ص۵۲)
’’حضرت عمر بن سلمہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضرت نبیﷺ نےایک ہی کپرے میں اس طرح نماز پڑھی کہ چادر کا دایاں کنارہ بائیں کندھے پر اور بایاں کنارہ دائیں کندھے پر تھا۔‘‘
اس مضمون کی احادیث حضرت جابر، سلمہ بن اکوع، انس، عمرو بن اسید، ابو سعید خدری، کیسان، ابن عباس، عائشہ، ام ہانی، عمار بن یاسر، طلق بن علی، ابو ہریرہ اور عبادہ بن صامت انصاری وغیرہ ہم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے صحیح بخاری، صحیح مسلم، سنن ابی داؤد، ترمذی، مسند احمد، نسائی اور ابن ماجہ وغیرہ میں بکثرت مروی ہیں۔ (تحفة الاحوذی شرح ترمذی (ج۱ص۲۷۷)نیل الاوطار،ج۲)
بعض اہل علم کو اس قسم کی احادیث سے دھوکہ لگا ہے کہ اگر ایک کپڑے میں نماز پڑھی جائے تو سر بہرحال ننگا رہے گا۔ مگر ان کا یہ مؤقف بدووجہ درست نہیں، اول اس لیے کہ ایک کپڑے کو اگر اچھی طرح جسم پر لپیٹا جائے تو سربہرحال ڈھانپا جا سکتا ہے۔ ثانی اس لیے کہ حدیث کے طالب علم پر یہ بات کوئی مخفی نہیں کہ یہ صورت حال کپڑوں کی کمیابی اور قلت کے ساتھ تعلق رکھتی ہے۔ صحیح بخاری میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہﷺ نے فرمایا: ((أولکلکم ثوبان؟)) (بخاری: ج۱ص۵۲)کیا تم میں سے ہر ایک کو دوکپڑے میسر ہیں۔‘‘ اور طلق بن علی کی حدیث میں ہے ((أوکلکم یجدثوبین؟)) (عون المعبود شرح ابی داؤد: ج۱ص۲۴) ’’کیا تم میں سے ہر ایک دو کپڑوں کی وسعت رکھتا ہے؟‘‘ اور سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے:
قال لقد رأیت الرجال عاقدی أزرھم فی أعناقھم من ضیق الازر خلف رسول اللہﷺ فی الصلاة کأمثال الصیان۔ (عون المعبود: ج۱ص۲۴۱)
’’حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو دیکھا کہ چادروں کے چھوٹے ہونے کی وجہ سے گلیتیاں باندھ کر رسول اللہﷺ کی اقتدا میں نماز پڑھتے تھے۔‘‘
یہ تینوں احادیث بتلا رہی ہیں کہ ایک کپڑے میں نماز پڑھنے والی بات اس دور سے تعلق رکھتی ہے جب صحابہ تنگدستی کی وجہ سے ایک سے زائد کپڑوں کی وسعت نہ رکھتے تھے۔ تاہم یہ اباحت اور جواز آج بھی اس طرح قائم ہے جس طرح اس تنگدستی کے عالم میں تھا۔
علامہ الشیخ عبیداللہ محدث مبارکپوریؒ تصریح فرماتے ہیں:
وأما صلوة النبیﷺ وأصحابه فی ثوب واحد ففی وقت کان بعدم ثوب اخر وفی وقت کان مع وجودہ لبیان الجواز۔ (مرعاة المفاتیح شرح مشکوة المصابیح: ج۱ص۵۰۵)
’’نبیﷺ اور صحابہ رضی اللہ عنہم کا ایک کپڑے میں نماز پڑھنا بعض وقت تو دوسرا کپڑا نہ ہونے کی وجہ سے تھا اور بعض وقت دوسرا کپڑا ہوتے ہوئے بھی ایک کپڑے میں نماز پڑھنا اظہار جواز کے لیے تھا۔‘‘
اندرین صورت ان احادیث سے ننگے سر نماز کا جواز یا اباحت تو ثابت ہوسکتی ہے۔ سنت یا استحباب اور عادت ثابت نہیں ہوسکتیْ
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب