السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
سجدہ کرتے ہوئے زمین پر ہاتھ رکھے جائیں یا گھٹنے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس مسئلے میں اختلاف ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ابراہم نخعی، مسلم بن یسار، سفیان ثوری، امام شافعی، امام احمد، امام اسحاق، امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب، امام ابن المنذر، امام ابن القیم اور جمہور علماء رحمہم اللہ کے نزدیک زمین پرپہلے گھٹنے رکھنے چاہییں۔ مگر امام اوزاعی، امام مالک، امام ابن حزم، محدیثین کرام اور دوسرے علماء کے نزدیک زمین پر پہلے ہاتھ رکھنے زیادہ صحیح ہیں۔
عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ، قَالَ: «رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا سَجَدَ وَضَعَ رُكْبَتَيْهِ قَبْلَ يَدَيْهِ، (رواہ الخمسة إلا احمد، نیل الاوطار: ص۲۸۲ ج۲، تحفة الاحوذی:ص۲۲۸ج۱)
’’حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو دیکھا آپ اپنے ہاتھوں سے پہلے اپنے گھٹنےزمین پر رکھتے تھے۔‘‘
اس حدیث کو اگرچہ امام خطابی وغیرہ نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث پر ترجیح دی ہے اور اثبت کہا ہے تاہم یہ حدیث ضعیف ہے۔ حافظ ابن حجر لکھتے ہیں:
أخرجه أَصْحَابُ السُّنَنِ الْأَرْبَعَةُ وَابْنُ خُزَيْمَةَ وَابْنُ حِبَّانَ وَابْنُ السَّكَنِ فِي صِحَاحِهِمْ مِنْ طَرِيقِ شَرِيكٍ عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْهُ قَالَ الْبُخَارِيُّ والترمذي وابن أبي دَاوُد وَالدَّارَقُطْنِيّ وَالْبَيْهَقِيُّ: تَفَرَّدَ بِهِ شَرِيكٌ.
قَالَ الْبَيْهَقِيُّ: وَإِنَّمَا تَابَعَهُ هَمَّامٌ عَنْ عَاصِمٍ عَنْ أَبِيهِ مُرْسَلًا.
وقال الترمذي رواه هَمَّامٌ عَنْ عَاصِمٍ مُرْسَلًا.
وَقَالَ الْحَازِمِيُّ:1 رِوَايَةُ مَنْ أَرْسَلَ2 أَصَحُّ وَقَدْ تُعُقِّبَ قَوْلُ التِّرْمِذِيِّ بِأَنَّ هَمَّامًا إنَّمَا رَوَاهُ عَنْ شَقِيقٍ يَعْنِي ابْنَ اللَّيْثِ عَنْ عَاصِمٍ عَنْ أَبِيهِ مُرْسَلًا وَرَوَاهُ هَمَّامٌ أَيْضًا عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جُحَادَةَ عَنْ عَبْدِ الْجَبَّارِ بْنِ وَائِلٍ عَنْ أَبِيهِ مَوْصُولًا وَهَذِهِ الطريق في سنن أبي دَاوُد إلَّا أَنَّ عَبْدَ الْجَبَّارِ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ أَبِيهِ وَلَهُ شَاهِدٌ مِنْ وَجْهٍ آخَرَ وَرَوَى الدَّارَقُطْنِيُّ وَالْحَاكِمُ وَالْبَيْهَقِيُّ: مِنْ طَرِيقِ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ عَنْ أَنَسٍ فِي حَدِيثٍ فِيهِ: ثُمَّ انْحَطَّ بِالتَّكْبِيرِ فَسَبَقَتْ رُكْبَتَاهُ يَدَيْهِ3 قَالَ الْبَيْهَقِيُّ تَفَرَّدَ بِهِ الْعَلَاءُ بْنُ إسْمَاعِيلَ الْعَطَّارُ وھو مجھول۔ (تلخیص الحبیر:ص۲۵۴ج۱)
عصر حاضر کے محدث محمد ناصر الدین البانی نے وائل بن حجرؓ کی حدیث کو موضوع تک کہ دیا ہے، تاہم ہمارے نزدیک یہ حدیث موضوع تو نہیں ضعیف ضرور ہے۔
مختصر یہ کہ وائل بن حجر کی یہ حدیث مع متابعات ضعیف ہے۔ مزید تفصیل نیل الاوطار (ص۲۸۳ ج۲) دارقطنی (ص۳۴۶) تحفۃ الاحوذی (ص۲۲۸،ص ۲۳۰ جلد۱) اور عون المعبود ج۱،ص۳۱۱ میں ملاحظہ فرمائیے۔
عن أبی ھریرة قال قال رسول اللہﷺ إذا سَجَدَ أَحَدُکُمَ فَلا تَبْرُک کَمَایَبْرُکُ الْبَعِیْرُ وَلْیَضَعُ یَدَیَہِ قَبْلَ رکبَتَیْہِ۔(عون المعبود شرح ابی داؤد، باب کیف یضع کبتیہ قبل یدیہ ص۳۱۱جلد۱۔ اخرجہ الثلاثہ وھو اقوی من حدیث وائل بن حجر، المذکور فی دلیل المذھب الاول فإن للاول فإن للأول شاھدا من حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہ صحیحہ ابن خزیمة وذکرہ البخاری معلقا، بلوغ المرام:ص۳۶)
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ تم میں سے جب کوئی آدمی سجدہ کرے تو اونٹ کی طرح نہ بیٹھے بلکہ وہ اپنے گھٹنوں سے پہلے اپنے ہاتھ کو زمین پر رکھے۔‘‘
اور یہ حدیث وائل کی حدیث سے زیادہ قوی ہے اور اس اک شاہد بھی موجود ہے۔ اس حدیث کا شاہد ہے:
عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ كَانَ " يَضَعُ يَدَيْهِ قَبْلَ رُكْبَتَيْهِ، وَقَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْعَلُ ذَلِكَ "۔ (صحیح ابن خزیمة۔ باب ذکر خبر روی عن النبیﷺ فی یدیہ بوضع الیدین قبل الرکبتین،ص۳۱۸جلد۱)
’’حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما گھٹنوں سے پہلے اپنے ہاتھ زمیں پر رکھتے تھے۔ انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ رسول اللہﷺ بھی ایسا ہی کرتے تھے۔‘‘
ڈاکٹر محمد مصطفیٰ الاعظمی اس حدیث پر لکھتے ہیں:
أسنادہ صحیح وصححه الحاکم ووافقه الذھبی ورجحه الحافظ علی حدیث وائل وعلقه البخاری۔ (تعلق ابن خزیمة: ص۳۱۸جلد۱)
’’اس حدیث کی اسناد صحیح ہے۔ امام حاکم اس کو صحیح کہا ہے۔ حافظ ذہبی نے بھی امام حاکم سے اتفاق کیا ہےاور حافظ بن حجر نے اس حدیث کو وائل بن حجرؓ کی حدیث پر ترجیح دی ہے۔
وقال الحافظ سید الناس احادیچ وضع الیدین قبل الرکبتین أرجع وقال ینبغی أن یکون حدیث أبی ھریرہ داخلا فی الحسن علی رسم الترمذی لسلامة رواته عن الجرح۔ (نیل الاوطار: باب ھیلات السجود کیف الھوی الیہص۲۸۴جلد۲)
’’حافظ سید الناس کہتے ہیں کہ بوقت سجدہ زمین پر ہاتھوں کو رکھنا زیادہ راجح ہے۔ امام ترمذی کے اصول کے مطابق ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کو حسن کہا جا سکتا ہے کیونکہ اس کے رواۃ جرح سے محفوظ ہیں۔‘‘
وقال بن التُّرْكُمَانِيِّ فِي الْجَوْهَرِ النَّقِيِّ وَالْحَدِيثُ الْمَذْكُورُ أَوَّلًا يَعْنِي وَلْيَضَعْ يَدَيْهِ ثُمَّ رُكْبَتَيْهِ دَلَالَةٌ قَوْلِيَّةٌ وقد تأيد بحديث بن عُمَرَ فَيُمْكِنُ تَرْجِيحُهُ عَلَى حَدِيثِ وَائِلٍ لِأَنَّ دَلَالَتَهُ فِعْلِيَّةٌ عَلَى مَا هُوَ الْأَرْجَحُ عِنْدَ الْأُصُولِيِّينَ۔ (تحفة الاحوذی: ص۲۲۹ج۱)
’’ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث قوی ہے اور اس کی تائید میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث بھی موجود ہے، لہٰذا اس حدیث کو وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی حدیث پر ترجیح ہے کیونکہ قولی دلیل فعلی دلیل کی نسبت راجح اور قوی ہوتی ہے۔‘‘
وَمِنْ الْمُرَجِّحَاتِ لِحَدِيثِ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّهُ قَوْلٌ، وَحَدِيثُ وَائِلٍ حِكَايَةُ فِعْلٍ وَالْقَوْلُ أَرْجَحُ مَعَ أَنَّهُ قَدْ تَقَرَّرَ فِي الْأُصُولِ أَنَّ فِعْلَهُ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - لَا يُعَارِضُ قَوْلَهُ الْخَاصَّ بِالْأُمَّةِ، وَمَحَلُّ النِّزَاعِ مِنْ هَذَا الْقَبِيلِ،۔ (تحفة الاحوذی ص۲۲۹ج۱)
’’ابوہریرہ رضی اللہ عنہ والی حدیث کی من جملہ ترجیحات میں سے ایک ترجیح یہ بھی ہے کہ وہ قولی حدیث ہے اور وائل کی حدیث آپ کے فعل کی حکایت ہے اور قول فعل سے راجح ہوتا ہے اور ہ بات بھی علم اصول میں طے شدہ ہے کہ آنحضرتﷺ کا فعل آپ کے اس قول کے معارض نہیں ہوتا جو امت کے لیے خاص ہوتا ہے اور یہ محل نزاع بھی اسی قبیل سے ہے۔‘‘
ورجح القاضی ابو بکر بن العربی فی عارضة الحوذی حدیث ابی ھریرة علی حدیث وائل بن حجر من وجه آخر فقال الھیئة التی رأی مالك (وھی الھیئة التی مرویة فی حدیث ابی ھریرة) متقولة فی صلوة اھل المدینه فترجحت بذلك علی غیرہ۔ (نیل الاوطار:ص۲۸۴ج۲)
’’اور قاضی ابوبکر بن العربی نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کو وائل کی حدیث پر اس وجہ سے بھی ترجیح دی ہے کہ اہل مدینہ سے سجدہ کرنے کی وہی ہیئت کذائی منقول ہے جو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں بیان ہوئی ہے، یعنی سجدہ کرتے وقت گھٹنوں سے پہلے ہاتھوں کو زمین پر رکھنا۔‘‘
بہرحال ہاتھ پہلے رکھے جائیں یا گھٹنے؟ دونوں طرح جائز ہے، تاہم راقم کے نزدیک ہاتھوں کو پہلے رکھنا زیادہ صحیح ہے۔
ھذا ما عندي واللہ أعلم بالصواب