گھروں یا دوسری جگہوں میں تصویریں آویزاں کرنے کا حکم ہے؟
جس جھاڑ پھونک سے منع کیا گیا ہے وہ وہ ہے جس میں شرک ہو یا غیر اللہ سے توسل ہو ، یا اس کے الفاظ مجہول ہو ں جن کی سمجھ نہ آسکے۔
رہا کسی ڈسے ہوئے آدمی کو دم جھاڑ کرنے کا مسئلہ تو یہ جائز ہیاور شفاء کا بڑا ذریعہ ہے کیونکہ نبیﷺ نے فرمایاہے:
’’جس دم جھاڑ میں شرک نہ ہو اس میں کوئی حرج نہیں‘‘
نیز آپ ﷺ نے فرمایا:
’’ جو شخص اپنے بھائی کو فائدہ پہنچا سکتا ہو اسے وہ کام کرنا چاہئے‘‘
ان دونوں احادیث کی مسلم نے اپنی صحیح میں تخریج کی ہے۔نیز آپﷺ نے فرمایا:
’’ دم جھاڑ نظر بد اور بخار کے لیے ہی ہوتا ہے‘‘
جس کا معنی یہ ہے کہ ان دو باتوں میں ہی دم جھاڑ بہتر اور شفابخش ہوتا ہے اور نبیﷺ نے خود دم جھاڑ کیا بھی ہے اور کرایا بھی ہے
رہادم جھاڑ یا تعویذ کو مریضوں اور بچوں کے گلے میں لٹکانا تو یہ جائز نہیں ۔ ایسے لٹکائے ہوئے تعویذ کو تمائم بھی کہتے ہیں اور حروز اور جو امع بھی ۔اورحق بات یہ ہے کہ یہ حرام اور شرک کی اقسام میں سے ایک قسم ہے کیونکہ نبیﷺ نے فرمایا ہے:
’’ جس شخص نے تعویذ لٹکایا اللہ تعالی اس کا بچاؤ نہیں کر ے گا اور جس نے گھونگا باندھا وہ اللہ کی حفاظت میں نہ رہا‘‘
نیز آپ ﷺ نے فرمایا:
’’ جس نے تعویذ لٹکایا اس نے شرک کیا‘‘
نیز آپ ﷺ نے فرمایا:
دم جھاڑ، تعویذ اور گنڈا شرک ہے‘‘
ایسے تعویذ جن میں قرآنی آیات یا مباح دعائیں ہو ں ان کے بارے علماء کا اختلاف ہے کہ آیا وہ حرام ہیں یانہیں؟ اور راہ صواب یہی ہے کہ وہ دو وجوہ کی بنا پر حرام ہیں۔
ایک وجہ تو مذکورہ احادیث کی عمومت ہے کیوںکہ یہ احادیث قرآنی اور غیر قرآنی ہر طرح کے تعویذوں کے لیے عام ہیں۔
اور دوسری وجہ شرک کا سدباب ہے کیونکہ جب قرآنی تعویذوں کو مباح قرار دے جائے توان میں دوسرے بھی شامل ہو کر معاملہ کو مشتبہ بنادیں گے اور ان سے مشرک کا دروازہ کھل جائے گا۔ جبکہ یہ بات معلوم ہے کہ جو ذرائع شرک یا معاصی تک پہنچانے والے ہوں ان کا سدباب شریعت کے بڑے قواعد میں سے ایک قاعدہ ہے اور توفیق تو اللہ ہی سے ہے۔