سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(84) تکبیر تحریمہ کے بعد ثناء پڑھنا

  • 14157
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 4841

سوال

(84) تکبیر تحریمہ کے بعد ثناء پڑھنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

1-کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ کے بارے میں تکبیر تحریمہ کے بعد ثناء یعنی سبحانک اللھم کا پڑھنا فرض ہے، واجب ہے، سنت یا مستجب ہے؟کتاب وسنت کی روشنی میں جواب تحریر فرمائیں۔

۲: کیا ہر رکعت کے شروع میں ثناء پڑھنی چاہیے۔ (سائل: مولوی عبدالرشید جوڑے ضلع قصور)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس مسئلہ میں اختلاف ہے، بعض علما۴ تکبیر تحریمہ کے بعد ثناء کے وجوب  کے قائل ہیں اور وہ حدیث مسیئ الصلوۃ کے ان الفا ظ سے استدلال کرتے ہیں:

((فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّهُ لَا تَتِمُّ صَلَاةٌ لِأَحَدٍ مِنَ النَّاسِ حَتَّى يَتَوَضَّأَ، فَیحسن الْوُضُوءَ - يَعْنِي مَوَاضِعَهُ - ثُمَّ يُكَبِّرُ، وَيَحْمَدُ اللَّهَ جَلَّ [ص:227] وَعَزَّ، وَيُثْنِي عَلَيْهِ، الحدیث))  (عون المعبود: باب صلاة من لا یقیم صلبہ فی الرکوع والسجود ج۱ص۳۲۰)

’’رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ کسی شخص کی نماز اس وقت تک پوری نہیں ہوتی جب تک وہ شرعی وضو کر کے تکبیر تحریمہ کے بعد اللہ عزوجل کی حمدوثناء نہ کرے۔‘‘

شارح ابی داؤد حضرت مولانا شمس الحق محدث ڈیانوی اور محدث دور حاضر الشیخ محمد ناصر الدین رحمہ اللہ کے نزدیک حمدوثناء واجب ہے۔ چنانچہ عون المعبود شرح ابی داؤد میں ہے:

((وفیه وجوب الحمد والثناء بعد تکبیر التحریمة))  (ج۱ص۳۲۰)

’’یہ حدیث اس امر کی دلیل ہے کہ تکبیر تحریمہ کے بعد قراءت سے پہلےحمد ثناء واجب ہے۔‘‘

نیز دیکھیےعلامہ محمد ناصر الدین کی کتاب صفۃ صلاۃ النبی (ص۷۲) گویا ان کے نزدیک لانتم صلاۃ لاحد من لا نفی الصحۃ ہے، تاہم اکثر علمائے اسلام کے نزدیک تکبیر تحریمہ کے بعد والی حمد ثناء سنت ہے، واجب نہیں اور وہ اس لا کو لانفی کمال قرار دیتے ہیں۔ امام ابن قدامہ حنبلی لکھتے ہیں:

((وجملة ذلك أن الاستفتاح (سبحانك اللھم وغیرہ) من سنن الصلوة فی قول اکثر أھل العلم وکان مالك لا یراہ)) (کتاب المغنی مع شرح الکبیر، فصل الاستفتاح ج۱،ص۵۱۵۔)

خلاصہ یہ کہ اکثر علمائے امت کے نزدیک تکبیر تحریمہ کے بعد والی حمد وثناء نماز کی سنتون میں سے ایک سنت ہے۔ مگر امام مالک سرے سے اس کے قائل ہی نہیں۔

امام شوکانی، حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی توجیہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث ثناء کی شرح میں لکھتے ہیں:

((وَالْحَدِيثَانِ وَمَا ذَكَرَهُ الْمُصَنِّفُ مِنْ الْآثَارِ تَدُلُّ عَلَى مَشْرُوعِيَّةِ الِاسْتِفْتَاحِ بِهَذِهِ الْكَلِمَاتِ))  (نیل الاوطار: باب ذکر الاستفتاح بین التکبیر والقراۃ ج۲ص۱۹۲،۲۹۶)

’’یہ دونوں حدیثیں اور دوسرے آثار ثناء کے سنت اور مشروع عمل  ہونے پر دلالت کرتے ہیں۔‘‘

محمد سابق مصری بھی حمد وثناء کو مندوب یعنی مشروع عمل ہی قرار دیتے ہیں جیسا کہ لکھتے ہیں:

((يندب للمصلي أن يأتي بأي دعاء من الادعية التي كان يدعو بها النبي صلى الله عليه وسلم ويستفتح بها الصلاة)) (فقه السنة: باب سنن الصلوة ج۱ص۱۲۱،۱۲۴)

اس احقرالناس کے نزدیک بھی اکثر علماء ہی کا قول راجح ہے۔ لہٰذا اگر آدمی ثناء پڑھنی بھول جائے یا سورہ فاتحہ کے فوت ہوجانے کے ڈر سے جان بوجھ کر ثناء اور تعوذ چھوڑ کر امام کی اقتدا میں سورۃ فاتحہ پڑھ لے تو اس کی یہ رکعت بلا شبہ ہوجائے گی۔

امام ابن قدامہ المقدسی تصریح فرماتے ہیں:

واذا نسی الاستفتاح أو ترکه عمدا حتی شرع فی الإستفادة لم بعد إلیھا لانه سنة فات محلھا وکذلك إن نسی التعذ حتی شرع فی القراءة لم یعد الیہ لذلك۔ (المغنی مع شرح الکبیر: ج۱ص۵۱۸)

مفتی جماعت اہل حدیث مولانا ابو البرکات المدراسی کا فتویٰ:

اگر امام صاحب اونچی آواز میں قراءۃ کر رہے ہوں و سبحانک اللہ الھم پڑھان درست نہیں۔ صرف سورۃ فاتحہ پڑھنی چاہیے جس طرح احادیث سے ثابت ہے۔ تصدیق محدث زماں استاذی المکرم حضرت حافظ محمد گوندلوی رحمہ اللہ۔ (فتاوی برکاتیہ: ص۵۶،۵۸)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص335

محدث فتویٰ

تبصرے