سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(83) سینے پر ہاتھ باندھنا

  • 14156
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 6199

سوال

(83) سینے پر ہاتھ باندھنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نماز میں ہاتھ کہاں باندھے جائیں؟ بعض لوگ تحت السرۃ والی روایت پیش کر کے کہتے ہیں کہ ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے چاہییں، جب کہ دوری احادیث میں نبیﷺ کا معمول علی الصدر، یعنی سینے پر ہاتھ باندھنا مذکور ہے۔ اس مسئلے کے متعلق قرآن وحدیث کی روشنی میں وضاحت کر کے شکر گزار فرمائیں۔ (سائل: شفیق الرحمٰن شاکر سیالکوٹ)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس مسئلے میں مستند احادیث کی رو سے صحیح یہ ہے کہ رسول اللہﷺ سینے پر ہاتھ باندھتے تھے۔ احادیث درج ذیل ہیں:

عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ قَالَ: «صَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَوَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى يَدِهِ الْيُسْرَى عَلَى صَدْرِهِ» (اخرجه ابن خزیمة فی صحیحہ، بلوغ المرام: ص۲۹۔ نووی:ص۱۷۳، تحفة الاحوذی:ص۲۱۵ج۱)

’’وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ کے ساتھ نماز پڑھی۔ پس آپ نے اپنا دایاں ہاتھ بائیں پر اپنے سینے پر رکھا۔‘‘

اس حدیئث کو علامہ ابن سید الناسؒ، شیخ محمد قائم سندھی حنفیؒ، محقق ابن امیر الحاج حنفی صاحب بحر الرائق اور علامہ محمد حیات سندھی حنفی نے صحیح کہا ہے۔ حافظ ابن حجرؒ اور امام شوکانی نے بھی اس حدیث کی صحت کو تسلیم کیا ہے۔ ملاحظہ ہو: فتح الغفور اورتحفۃ الاحوذی۔

۲۔           عن ھلب الطائی قَالَ: «رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْصَرِفُ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ يَسَارِهِ، وَرَأَيْتُهُ، قَالَ، يَضَعُ هَذِهِ عَلَى صَدْرِهِ» وَصَفَّ يَحْيَى: الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى فَوْقَ الْمِفْصَلِ۔ (رواہ احمد فی مسندہ ورواة ھذا الحدیث کلھم ثقات واسنادہ متصل، تحفة الاحوذی:ج۱ص۲۱۶، نیل الاوطار:ص۲۰۸ج۲)

’’جناب ہلب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہﷺ کو دیکھا وہ سلام کے بعد دائیں جانب اور کبھی بائیں جانب سے نمازیوں کی طرف رخ موڑتے، نیز میں نے دیکھا کہ آپ بائیں ہاتھ کے جوڑ کے اوپر دایاں ہاتھ رکھتے اور سینے پر ہاتھ باندھتے۔

۳۔           ((عَنْ طَاؤس قال کان النبیﷺ یَضَعَ یَدَہُ الْیُمْنیٰ عَلیٰ یَدِہِ الیُسْرٰی ثُمَّ یشد بِھِمَا علی صدرہ وھو فی الصلوة)) (مراسیل ابی داؤد:ص۶)

یعنی رسول اللہﷺ نماز میں دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر سینے پر باندھا کرتے تھے۔ یہ حدیث: اگرچہ مرسل ہے، تاہم امام مالکؒ اور امام ابو حنفیہ کےنزدیک مرسل حجت ہوتی ہے۔

ان تینوں حدیثوں سے معلوم ہوا کہ نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنے چاہییں ۔ رہی وہ روایتیں جن میں ناف کے نیچےہاتھ باندھنے کا ذکر ملتا ہے، جیسا کہ جناب سائل نےلکھا ہے تو گزارش ہے کہ اس قسم کی جو دو ایک روایتیں ہیں وہ سنداً مخدوش ہیں۔ مثلاً

۱۔ (( عن وائل بن حجر قال رأیت النبیﷺ یَضَعُ یَمِیْنَه عَلیٰ شِمَالِہ تَحْتَ السرة))

’’میں نے دیکھا کہ رسول اللہﷺ نے ناف کے نیچے ہاتھ باندھے تھے۔‘‘

یہ سند کے لحاظ سے اگر چہ صحیح ہے، تاہم متن کے لحاظ سے یہ حدیث صحیح نہیں۔ یہ روایت دراصل مصنف ابن ابی شیبہ کی ہے اور اس حدیث کے نیچے ابراہیم نخعی کا قول ہے جس میں تحت السرہ کا جملہ موجود ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کاتب  نے غلطی کے اس صحیح سند کے ساتھ ابراہیم نخعی کا یہ جملہ ملا دیا ہے۔ ورنہ یہ جملہ وائل کی حدیث میں موجود نہیں۔ چنانچہ ہیہی وجہ ہے کہ ماہرین علم حدیث اور قائلین مذہب نے بھی اس حدیث سے استدلال نہیں کیا، جن میں حافظ ابن حجرؒ اور حافظ ابو عمروبن عبدالبر کے علاوہ حافط بدرالدین عینی حنفی شارح بخاری ابن کمانی حنفی شیخ محمد فاخر الہ آبادی شیخ محمد حیات سندھی حنفی اور ابن امیر الحجاج حنفی وغیرہ افاضل خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ علاوہ ازیں یہ بات بھی خاص قابل غور ہے کہ مسند احمد میں یہ حدیث بالکل اسی سند کے ساتھ مروی ہے مگر اس میں تحت السرہ کا جملہ موجود نہیں۔ لہٰذا معلوم ہوا کہ اس حدیث میں جملہ (تحت السرہ) محفوظ نہیں ہے، لہٰذا اس سے استدلال صحیح نہیں۔

۲۔((عن علی رضی اللہ عنه قال إِنَّ مِنَ السُّسَّة فِی الصلوة وَضْعُ الْاَکُفِّ علی الاکف تحت السُرَّة)) (رواہ أحمد وابوداؤد، نیل الاوطار:ص۲۱۰ج۲)

یعنی نماز میں سنت یہ ہے کہ ناف کے نیچے ہاتھ باندھے جائیں۔

لیکن یہ روایت اس لیے قابل استدلال نہیں ہے کہ اس کی سند میں ایک  راوی عبدالرحمٰن بن اسحاق واسطی ہے اور وہ سخت ضعیف ہے جیسا کہ حافظ زیلعی نصب الرایہ میں لکھتے ہیں کہ امام احمد بن حنبل اور ابوحاتم نے اس کو منکر الحدیث کہا ہے۔ امام یحیی بن معین نے اسے لیس بشی قرار دیا ہے۔

امام بخاری نے فیہ نظر اور بیہقی نے متروک کہا ہے۔ امام نووی نے اسے بالاتفاق ضعیف کہا ہے:

ھو حدیث متفْ علی تضعیفه فان عبدالرحمان بن اسحاق ضعیف بالتفاق(نووی:ص۱۷۳ج۱۔تحفة الاحوذی:ص۲۱۵ج۱)

لہٰذا یہ حدیث بھی قابل استدلال نہیں ہے۔

دوسری حدیث حضرت ابو ہریرہ رضٰ سے مروی بتائی جاتی ہے جس میں أخذ ألا کف علی الأکف تحت السرۃ کے الفاظ ملتے ہیں، جیسا کہ سنن ابی داؤد میں ہے مگر یہ حدیث بھی اسی عبدالرحمان بن اسحاق واسطی سے مروی ہے جو کہ سخت ضعیف ہے۔

حدیث نمبر۳: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:

((ثلت من اخلاق النبوة تعجیل الافطار وتاخیر السحور ووضع الید الیمنی علی الیسری فی الصلوة تحت السرة)) (ذکرہ ابن حزم فی المحلی تعلیقا)

’’امور نبوت میں تین باتیں بھی شامل ہیں۔ (۱) روزہ جلد افطار کرنا (۲) دیر سے سحری کھانا (۳) ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا۔‘‘

مگر اس حدیث کو ہمارے حنفی بھائی اپنی کتابوں میں ضرور ذکر کرتے ہیں: مگر اس کی سند بیان نہیں کرتے۔ ایسی صورت میں اس حدیث میں استدلال کرنا محض دل بہلاوہ ہے اور بس۔ ملاحظہ ہو(تحفۃ الاحوذی ص۲۱۵ج۱)

بہرحال مسنون صرف یہ ہے کہ نماز میں سینہ کے اوپر ہاتھ باندھے جائیں، ناف کے اوپر یا ناف کے نیچے کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہیں۔ اسی طرح جو لوگ سرے سے ہاتھ کھول کر نماز پرھنے کے قائل ہیں وہ بھی صحیح نہیں۔ بہرحال ہمارے نزدیک صحیح صرف یہ ہے کہ سینہ کے اوپر ہاتھ باندھے جائیں: جیسا کہ احادیث صحیحہ آپ کے سامنے ہیں۔ واللہ اعلم وعلمہ اتم وحکمہ احکم۔

نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنا

یاد رہے ان دو بزرگوں کا جنہوں نے نماز میں سینہ پر ہاتھ باندھنے کی سنت کا مذاق اڑایا اور اس کو ہدف تنقید بنایا اور فقہ حنفی سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کی فقہ میں جو مسائل ہیں جن کے متعلق مشہور کر رکھا ہے یہ کتاب وسنت کا عطرونچوڑ ہیں لیکن اس میں بعض ایسے مسائل ہیں جن کا کتاب وسنت سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے۔

اب وہ روایات نقل کی جاتی ہے جو نماز کی حالت قیام میں قبل از رکوع سینہ پر ہاتھ باندھنے کے ثبوت میں ہیں۔

۱۔ وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے صحیح ابن خزیمہ کی روایت:

عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ قَالَ: «صَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَوَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى يَدِهِ الْيُسْرَى عَلَى صَدْرِهِ» (صحیح ابن خزیمة:صفحه ۲۴۳جلد۱)

’’وائل بن حجر رضی اللہ عنہ نے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہﷺ کے ساتھ نماز پڑھی اور آپﷺ نے (قیام کی حالت میں قبل از رکوع) اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر سینہ پر رکھا (باندھا)۔‘‘

صحیح ابن خزیمہ کی یہ روایت مفسر قرآن شیخ الحدیث امام ابو محمد عبدالستار محدث دہلویؒ نے بخاری کی شرح نصرۃ الباری (ص۶۳اپ۳) میں، امام نووی نے شرح مسلم میں (ص۱۷۳، ۲۱۵ج۱) شارح حدیث شیخ الحدیث علامہ ابو محمد عبدالرحمٰن محدث مبارکپوری نے تحفۃ الاحوذی شرح ترمذی میں (ص۲۱۳، ۲۱۵ج۱) محدث شہیر ابو طیب شمس الحق عظیم آبادی نے عون المعبود شرح ابو داؤد میں (ص۲۷۶ج۱) مولانا محمد عطاء اللہ حنفی بھوجیانیؒ نے التعلیقات السلفیہ علی النسائی میں (ص۱۰۵ج۱) م ولان محمد تھانوی نے حاشیہ نسائی میں (ص۱۳۱،ج۱مطبوعہ کراچی) محمد بن عبداللہ علوی نے مفتاح الحاجہ شرح ابن ماجہ میں (ص۱۵۹) التعلیق المغنی علی سنن الدارقطنی (ص۲۸۵،ج۱) نیل الاوطار شرح منتقی الاخبار (ص۱۹۵،جلد۲) مرعاۃ المفاتیح شرح مشکوۃ المصابیح (طبع جیدی سرگودھا ص۶۰، ج۱) مشکوۃ شریف مترجم ترجمہ از مولانا شیخ الحدیث محمد سماعیل سلفی (حاشیہ صفحہ ۵۲۷ جلد۱) تلخیص الحبیر (ص ۲۲۴، جلد ۱) بلوغ المرام مع سبل السلام (مطبوعہ ریاض، ص۳۹۳، جلد۱) دین الحق (ص۲۱۲) میں بھی ہے۔ یاد رہے: غزنوی ترجمہ کے مولف اور مولانا شیخ الحدیث محمد اسماعیل سلفی اس روایت کے متعلق علامہ ابن حجر کی رائے اس طرح نقل کرتے ہیں: علامہ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں کہ اس مسئلہ میں یہ حدیث سب سے زیادہ صحیح ہے۔

مسند احمد کی روایت:

مسند احمد میں قبیصہ بن ہلب کی روایت اس طرح ہے:

((عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ هُلْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: " رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْصَرِفُ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ يَسَارِهِ، وَرَأَيْتُهُ، قَالَ، يَضَعُ هَذِهِ عَلَى صَدْرِهِ))(مسند احمد مطبوعہ گوجرانوالہ ص۲۱۴ج۵)

’’قبیصہ بن ہلب نے اپنے والد سے روایت کی انہوں نے کہا کہ میں نے نبیﷺ کو (نماز سے سلام پھیرنے کے بعد) نکبھی دائیں اور کبھی بائیں طرف پھرتے دیکھا اور (نماز میں قیام کی حالت میں قبل ازرکوع) میں نے آپﷺ کو سینہ پر ہاتھ باندھتے دیکھا۔‘‘

مسند احمد کی یہ روایت تحفۃ الاحوذی شرح ترمذی (ص۲۱۶، جلد۱) عون المعبود شرح ابو داؤد (ص۲۷۶، جلد۱) التعلیقات السلفیہ علی النسائی (ص۱۰۵، ج۱) التعلیق المغنی علی سنن الدار قطنی (ص ۲۸۵جلد۱) حاشیہ مشکوۃ شریف مترجم غزنوی ترجمہ ص۱۷۴ ج۱) دین الحق فی تنقید جاء الحق (ص۲۱۷) میں بھی ہے۔

۳۔ بیہقی کی وائل بن حجرؒ کی روایت:

باب وضع الیدین علی الصدر فی الصلوٰة من السنة۔ با ب نماز میں ہاتھ سینے پر باندھناسنت ہے۔ غور فرمائیں کہ امام بیہقیؒ نماز میں میں سینے پر ہاتھ باندھنے کے بارے میں باقاعدہ باب باندھا ہے۔ اس باب میں وائل بن حجر ؒ کی جو روایت ہے وہ اس طرح ہے:

(( عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ قَالَ: حَضَرْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَوْ حِينَ نَهَضَ إِلَى الْمَسْجِدِ فَدَخَلَ الْمِحْرَابَ، ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ بِالتَّكْبِيرِ، ثُمَّ وَضَعَ يَمِينَهُ عَلَى يُسْرَاهُ عَلَى صَدْرِهِ )) (بیھقی:ص۳۰ج۲)

’’وائل بن حجرؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہﷺ کے پاس حاضر ہوا (جب کے لیے اذا یاحین کا لفظ استعمال کیا گیا ہے) جب آپﷺمسجد کی طرف کھڑے ہوئے تو آپ محراب میں داخؒ ہوئے (نماز شروع کی تو) آپﷺ نے تکبیر (اولیٰ) کے ساتھ دونوں ہاتھ بلند کئے، پھر آپﷺ نے اپنا ہاتھ بائیں ہاتھ پر سینے پر باندھا۔‘‘

بیقہی کی یہ روایت التعلیق المغنی علی سنن الدار قطنی (ص۲۸۵،ج۱) مین بھی ذکر کی گئی ہے۔

۴۔ بیہقی کی دوسری روایت بالفاظ دیگر:

((عن وائل انه رأی النبیﷺ وضع یمینہ علی شمالہ ثم وضعھما علی صدرہ)) (بیھقی:ص۳۰،ج۲)

’’وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبیﷺ کو (نماز میں قیام کی حالت میں) دیکھا کہ آپﷺ نے اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھا، پھر ان دونوں کو اپنے سینے پر باندھا۔‘‘

بیہقی کی یہ روایت التعلیق المغنی علی سنن الدار قطنی (ص۲۸۵،ج۱) میں مذکورہے۔

۵۔ مسند بزار کی روایت:

مسند بزار کی جو روایت تحفۃ الاحوذی شرح ترمذی میں ہے، وہ اس طرح ہے: عند صدرہ (تحفۃ الاحوذی شرح ترمذی: ۲،۲۱۶جلد۱) صفحہ ۱۴ سینے کے پاس (یعنی سینے پر) ہاتھ باندھتے تھے۔ مسند بزار کی یہ روایت نصرۃ الباری ترجمہ وشرح صحیح البخاری صفحہ ۱۲۳ اپ ۳ اور التعلیقات السلفیہ علی النسائی (ص۱۰۵) میں بھی ہے۔

۶۔ مراسیل ابو داؤد کی روایت:

((عَنْ طَاؤس قال کان النبیﷺ یَضَعَ یَدَہُ الْیُمْنیٰ عَلیٰ یَدِہِ الیُسْرٰی ثُمَّ یشد بِھِمَا علی صدرہ وھو فی الصلوة))  (عون المعبود شرح أبی داؤد وحاشیه صفحه ۲۷۵ جلد۱ ومراسیل أبی داؤد صفحه ۶مطبوعہ کراچی)

’’طاؤس نے روایت کی کی رسول اللہﷺ اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھتے اور (قیام کی حالت میں) پھر ان کو اپنے سینے پر باندھتے نماز میں۔‘‘

مراسیل کی یہ روایت تحفۃ الاحوذی شرح ترمذی (ص۲۱۶،جلد۱) التعلیقات السلفیہ علی النسائی (ص۱۰۵جلد۱) مفتاح الحاجہ شرح ترمذی (ص۵۹) نیل الاوطار (ص۱۹۵،ج۲) دین الحق فی تنقید جاء الحق (ص۲۱۸) میں بھی ہے۔

صحابہ کے آثار:

بیہقی میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا اثر اس طرح ہے:

((قال ان علیا رضی اللہ عنه قال فی ھذہ الایة﴿ فصل لربك وانحر﴾ قال وضع یدہ الیمنی علی وسط یدہ الیسری ثُمَّ وَضَعَهُمَا عَلَى صَدْرِهِ))  (بیھقی:صفحہ،۳جلد۲ باب وضع الیدین علی الصدر فی الصلوة من السنة۔)

’’حضرت علی رضی اللہ عنہ نے آیت (فَصَل لِرَبِّکَ وَانْحَر) کی تفسیر میں فرمایا کہ دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کےت درمیان (یعنی بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کی پشت پر) رکھ کر سینے پر باندھا۔‘‘

بیہقی کا حضرت علی رضٰ کا یہ اثر تفسیر ابن جریر طبری (ص۲۱۰، پارہ ۳۰، جلد۱۲) احکام القرآن للحصاص حنفی (ص۷۱۹ جلد۳) حاشیہ مشکوٰۃ شریف مترجم غزنوی (ترجمہ صفحہ ۱۷۴) تحفۃ الاحوذی شرح ترمذی (ص۲۱۵،جلد۱) التعلیقات السلفیہ علی النسائی (صف ۱۰۵جلد نمبر۱) میں بھی ہے۔

حضرت انس کا اثر:

عَنْ اَنَس رضی اللہ عنه مِثله۔ (بیھقی:صفحہ ۳۰،۳۱ج۲)

حضرت انس رضی اللہ عنہ کا قول اس جیسا (یعنی کہ حضرت علی رضٰ کے قول جیسا) ہے فصل لربک وانحر کی تفسیر میں۔

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول:

ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول بیہقی میں اس طرح مروی ہے:

((عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا فِي قَوْلِ اللهِ عَزَّ وَجَلَّ {فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ} [الكوثر: 2] قَالَ: " وَضْعُ الْيَمِينِ عَلَى الشِّمَالِ فِي الصَّلَاةِ عِنْدَ النَّحْرِ )) (بیھقی:ص۳۱ج۲)

’’ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اللہ تعالیٰ کے فرمان (فصل لربک وانحر) کی تفسیر میں مروی ہے کہ نماز میں دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر نحر کے پاس (یعنی سینے پر) دونوں ہاتھ باندھے۔‘‘

بیہقی کا ابن عباس رضی اللہ عنہما کا اثر نیل الاوطار (ص۱۹۵،ج۲) میں بھی ہے۔

مولانا مودودی:

مولانا مودودی اس آیت فصل لربک کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

اسی طرح وانحر یعنی نحر کرو سے مراد بعض جلیل القدر بزرگوں سے یہ منقول ہے کہ نماز میں بائیں ہاتھ پر دایاں رکھ کر اپنے سینے پر باندھنا ہے: الخ (تفہیم القرآن: ص۴۹۶ جلد۲)

مزید کچھ کتب کے حوالے دئیے جاتے ہیں ان سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ ان کتب میں بھی یہ مضمون کسی میں تو کافی تفصیل اور کسی میں بالکل مختصرہے بہرحال فائدہ سے خالی نہیں ہے۔ کتب مندرجہ ذیل ہیں۔ حاشیہ مشکوٰۃ شریف مترجم (ص۳۵۲،۳۵۳ج۱) بلوغ المرام مترجم از مولانا عبدالتواب ملتانی (حاشیہ صفحہ ۱۱۴،جلد۱) اتحاف الکرام اردو شرح بلوغ المرام از مولانا صفی الرحمٰن صاحب مبارکپوری (ص۱۹۱، جلد۱) فتاویٰ نذیریہ (ص۴۵ج۱) از سید نذیر حسین دہلوی) فتاویٰ اہل حدیث از حضرت العلام حافظ عبداللہ روپڑی (ص۴۶۱( فتاویٰ علمائے اہلحدیث (س۹۱ تا ۹۵، ج۳۔ مرتبہ مولانا علی محمد سعیدی) فتاویٰ برکاتیہ (ص ۱۳۸ از علامہ ابوالبرکات احمد) مکمل نماز از مولانا عبدالوہاب محدث دہلوی (حاشیہ نمبر۲ صفحہ ۲۱۵) تعلیم الصلوٰۃ (ص۲۶،۱۰۳از حضرت العلام حافظ محمد عبداللہ روپڑی) اہلحدیث کے امتیازی مسائل (ص۷۷) راہ سنت (ص۱۰۰از حضرت مولانا ابو السلام محمد صدیق) صلوۃ الرسول مع تخریج تسھیل الوصول (ص۱۹۹ تا ۲۰۳ از مولانا محمد صادق سیالکوٹی) اہلحدیث کا مذہب (صفحہ ۱۷۲ از مولانا ثناء اللہ امرتسریؒ) صلوۃ المصطفی (ص۲۵۳ از شیخ الحدیث مولانا محمد علی جانباز) نماز کے مسائل (ص۷۳ محمد اقبال کیلانی صاحب) صلوٰۃ النبی (ص۴۳از  مختار احمد ندوی)، حدیث نماز (ص۵۳ از مولانا حافظ عدالمتین صاحب جونا گڑھی) نماز نبوی (ص۱۴۴ از ڈاکٹر سید شفیق الرحمٰن صاحب)

آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سب کو کتاب وسنت کے مطابق عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ محمدیہ

ج1ص329

محدث فتویٰ

تبصرے