السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا نماز تسبیح باجماعت پرھنا سنت نبویﷺ اور تعامل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ثابت ہے؟ اگر ثابت نہیں تو کیا یہ بدعت ہے؟ ایک مولوی صاحب کے نزدیک جس طرح تراویح کا باجماعت پڑھنا صحیح ہے، اسی طرح نماز تسبیح کا باجماعت جائز ومستحب ہے۔ کیا یہ بات صحیح ہے؟ (سائل: حافظ محمد اقبال ربانی سیالکوٹ)
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
واضح ہو کہ حدیث صلوٰۃ تسبیح کی اسنادی حیثیت میں ہی سخت اختلاف ہے۔ نہ صرف اس کی صحت وضعف میں بلکہ بعض ائمہ نے اس حدیث کو موضوع تک بھی کہا ہے۔
امام عقیلی، ابو بکر بن العربی، نووی، شیخ الاسلام ابن تیمیہ، ابن الہادی امام مزی اور حافظ ابن حجر نے اس حدیث کو ضعیف کہا ہے اور امام ابن جوزی نے اس حدیث کو موضوع قرار دی اہے اور کہا ہے کہ اس کا راوی موسیٰ بن عبدالعزیز مجہول ہے۔ اور خطیب بغدادی ابن صلاح، سبکی، سراج الدین بلقینی، حافظ ابن مندہ، منذری، ابو موسیٰ، مدینی، زرکشی، نووی (تہذیب الاسماء والصفات میں) ابو سعید سمعانی، حافظ ابن حجر (خصال المکفرہ میں) ابو منصور، بیہقی اور امام دار قطنی نے اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے (مرعاۃ، ج۲ص۲۵۳، تحفۃ الاحوذی، ج۱ص۳۵۰) معلوم ہوا کہ اس حدیث کی اسنادی حیثیت سخت مخدوش ہے۔
تاہم ہمارے نزدیک تعدد طرق کی وجہ سے یہ حدیث قابل عمل ہے اور نماز تسبیح پڑھ لینا گناہوں کی مغفرت اور بلندی درجات وحسنات کا ایک اچھا ذریعہ ہے۔ لیکن اس کا اہتمام کرنا اور لوگوں کو اکٹھا کر کے مسجد میں باجماعت نماز تسبیح پڑھنا کم از کم شائبہ بدعت سے خالی نہیں۔
اول اس لیے کہ یہ ضروری نہیں کہ کوئی چیز اصل ہی میں بری ہو تو بدعت ہوگی، بلکہ وہ عبادات اور اہم طاعات بھی جن کو شریعت نے مطلق چھوڑا ہے ان کو اپنی طرف سے مقید کرنا یا ان کی منقول کیفیت کو تبدیل کرنا یا اپنی طرف سے ان کو خاص اوقات کے ساتھ معین اور موقت کر دین وغیر شرعاً بدعت ہی ہو گی اور شریعت اسلامی اس کو برداشت نہیں کرے گی۔ چنانچہ صحیح مسلم میں ہے:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تَخُصُّوا لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ بِقِيَامٍ مِنْ بَيْنِ اللَّيَالِي، وَلَا تَخُصُّوا يَوْمَ الْجُمُعَةِ بِصِيَامٍ مِنْ بَيْنِ الْأَيَّامِ إِلَّا أَنْ يَكُونَ فِي صَوْمٍ يَصُومُهُ أَحَدُكُمْ» (باب کراھیة افراد یوم الجمعة بصوم لا یوافق عادته: ج۱، ص۳۶۱)
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حضرت نبیﷺ نے فرمایا کہ جمعہ کی رات کو دوسری راتوں کی علی الرغم نماز اور قیام کے لیے خاص نہ کرو اور جمعہ کے دن کو دوسرے دنوں کے مقابلہ میں نفلی روزہ کے لیے خاص نہ کرو۔ مگر ہاں اگر کوئی شخص روزے رکھتا ہے اور جمعہ کا دن بھی اس میں آ جائے تو پھر کوئی حرج نہیں۔‘‘
اس صحیح حدیث سے واضح ہوا کہ جمعہ کی بزرگی نماز جمعہ کی وجہ سے ہے۔ محض اس بزرگی کے سبب جمعہ کی رات کو نوافل کے لیے اور دن کو روزے کے لیے خاص کرنا درست نہیں۔
۲۔ امام ابو اسحاق ابراہیم بن موسیٰ شاطبی غرناطی بدعات کی تعیین اور ان کا رد کرتے ہوئے رقم طراز ہیں:
ومنھا التزام الکیفیات والھیئات المعینۃ کالذکر بھیئۃ الاجتماع علی صوت واحد واتخاذ یوم ولادۃ النبیﷺ عبدا وما اشیبہ ذاک ومنھا التزام العبادات المعینۃ فی اوقات معینۃ لم یوجد لھا ذلک التعبین فی الشریعۃ کالتزام صیام یوم النصف من شعبان وقیام لیلتہ۔ (الاعتصام للشاطبی: ج۱ ص۲۰)
’’انہی بدعات میں سے کیفیات مخصوصہ اور ہییات معینہ کا التزام ہے۔ جیسا کہ ہیئت اجتماع کے ساتھ ایک آواز پر ذکر کرنا اور حضرت نبیﷺ کے یوم ولادت کو عید منانا وغیرہ اور انہی بدعات میں سے اوقات خاص کے اندر ایسی عبادات معینہ کا التزام کر لینا بھی شامل ہے، جن کے لیے شریعت اسلامی نے وہ اوقات معین نہیں کئے، جیسے پندرہ شعبان کا روزہ اس اس کی پندرہویں رات کی عبادت کا التزام کرنا ہے۔‘‘
موصوف دوسرے مقام پر مزید لکھتے ہیں:
فَإِذَا نَدَبَ الشَّرْعُ مَثَلًا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ فَالْتَزَمَ قَوْمٌ الِاجْتِمَاعَ عَلَيْهِ عَلَى لِسَانٍ وَاحِدٍ وَبِصَوْتٍ أَوْ فِي وَقْتٍ مَعْلُومٍ مَخْصُوصٍ عَنْ سَائِرِ الْأَوْقَاتِ - لَمْ يَكُنْ فِي نَدْبِ الشَّرْعِ مَا يَدُلُّ عَلَى هَذَا التَّخْصِيصِ المُلْتَزَم، بَلْ فِيهِ مَا يَدُلُّ على خلافه لِأَنَّ الْتِزَامَ الْأُمُورِ غَيْرِ اللَّازِمَةِ شَرْعًا شَأْنُهَا أَنَّ تُفْهِمَ التَّشْرِيعَ، وَخُصُوصًا مَعَ مَنْ يُقْتَدَى بِهِ فِي مَجَامِعِ النَّاسِ كَالْمَسَاجِدِ؛ فَإِنَّهَا إِذَا ظَهَرَتْ هَذَا الْإِظْهَارَ وَوُضِعَتْ فِي الْمَسَاجِدِ كَسَائِرِ الشَّعَائِرِ الَّتِي وَضَعَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسَاجِدِ وَمَا أَشْبَهَهَا كَالْأَذَانِ وَصَلَاةِ الْعِيدَيْنِ وَالِاسْتِسْقَاءِ وَالْكُسُوفِ ؛ فُهِمَ مِنْهَا بِلَا شَكٍّ أَنَّهَا سُنَنٌ، إِذَا لَمْ تُفْهَمْ مِنْهَا الْفَرْضِيَّةُ، فَأَحْرَى أَنْ لَا يَتَنَاوَلَهَا الدَّلِيلُ الْمُسْتَدَلُّ بِهِ، فَصَارَتْ مِنْ هَذِهِ الْجِهَةِ بِدَعًا مُحْدَثَةً بِذَلِكَ. (الاعتصام: ج۱، ص۲۰۰)
’’جب شریعت نے کسی چیز کو مندوب قرار دیا ہو، مثلاً: اللہ کا ذکر، سواگر ایک قوم اس کا التزام کر لے کہ ایک زبان ہو کر ایک ہی آواز سے ذکر کرنے لگ جاتی ہے یا دیگر اوقات کے علاوہ کسی معلوم اور مخصوص وقت کی پابندی کے ساتھ وہ ذکر کرتی ہے تو شریعت کی ترغیب اس میں تخصیص اور التزام پر ہرگز دلیل نہیں ہو گی بلکہ شریعت اس کے خلاف ہو گی کیونکہ جو امور شرعاً لازمہ نہیں، ان کا التزام کرنا دراصل شریعت سازی کا حکم رکھتا ہے۔ بالخصوص جب کہ ان غیر لازم امور کا التزام مساجد کے نامی گرامی ائمہ کرام اپنی مساجد میں شروع کر دیں تو وہ امور عوام میں کم از کم سنت کا درجہ ضرور حاصل کر لیں گے لہٰذا اس جہت سے یہ امور بلا شبہ بدعت ہیں۔‘‘
امام ابن دقیق العید لکھتے ہیں:
أن ھذہ الخصوصیات بالوقت أو بالحال والھیئة والفعل المخصوص یحتاج إلی دلیل خاص یقتضی استحبابه بخصوصه وھذا أقرب
’’یہ خصوصیات وقت یا حال اور ہیئت اور فعل مخصوص کے ساتھ کسی خاص دلیل کی محتاج ہیں۔‘‘
پھر روافض کی عید غدیر کی تردید کرنے کے بعدلکھتے ہیں:
وقریب من ذلك ان تکون العبادة من جھة الشرع مرتبة علی وجه مخصوص فیرید بعض الناس ان یحدث فیھا أمرا اخر لم یردبه الشرع زاعما انه یدرجه تحت عموم فھذا لا یستقیم لان الغالب علی العبادات التعبد وما کذاھا التوقیف۔ (احکام الاحکام: ج۱ ص۱۷۲)
’’اسی کے قریب یہ بات بھی ہے کہ کوئی عبادت شریعت میں کسی خاص طریقہ پر ثابت ہو اور بعض لوگ اس میں کچھ تبدیلی کر دیں اور خیال کرں کہ یہ بھی عموم کے نیچے داخل ہے تو ان کا ایسا خیال درست اور صحیح نہ ہو گا کیونی عبادات کے اندر تعبدی طریقہ غالب ہے اور اس کا ماخذ (رسول اللہﷺ اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے) اطلاع پائے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا‘‘
مجدد وقت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی لکھتے ہیں:
ومنھا التشدد وحقیقیة اختیارات عبادات شاقة لم یامر بھا الشارع کدوام الصیام والقیام والتبتل وترك التزوج وأن یلتزم السنن والاداب کالتزام الواجبات، فإذا کان ھذا المتعمق والمتشدد معلم قوم ورئیسھم ظنوا ان ھذا امر الشارع ورضاہ وھذا داء رھبان الیھود والنصاری۔ (حجة ؟، باب احکام الدین من التحریف، ج۱، ص۱۲۰)
’’تحریف دین کے من جملہ اسباب کے ایک یہ سبب ہے کہ دین میں تشدد اختیار کیا جائے اور اس تشدد کی حقیقت یہ ہے کہ ایسے مشکل عبادات کو اختیار کیا جائے جس کے متعلق شارع نے کوئی حکم نہیں دیا۔ مثلاً: کوئی دوامی طور پر روزہ رکھے، قیام کرے، تخلیہ میں بیٹھا رہے اور نکاح کرنے سے گریز کرے۔ اور مثلاً: یہ کہ سنتوں اور مستحبات کا ایسا التزام کرے، جیسا کہ واجبات کے لیے کیا جاتا ہے۔ پھر فرمایا جب کوئی ایسا متعمق یا متشدد کسی قوم کا معلم یا سردار بن جاتا ہے تو قوم یہ خیال کر لیتی ہے کہ اس کا یہ عمل شرع کا حکم اور اس کا پسندیدہ امر ہے اور یہی بیماری تھی یہودیوں اور نصاریٰ کے صوفیوں میں۔‘‘
امام ابو اسحاق شابطی اور شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی مذکورہ بالا تصریحات سے واضح ہوا کہ شریعت نےجن عبادات اور طاعات کو مطلق چھوڑا ہے۔ ان میں اپنی طرف سے قیود لگانا یا ان کی کیفیت اور ہیئت کو بدل دینا یا ان کو اوقات معینہ کے ساتھ متعین کرنا گویا دین کوبدل دینا ہے اور اسی کا نام تحریف دین ہے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ قانون الٰہی نے انسانوں کو ان کی اپنی مرضی پر نہیں چھوڑا۔ عبادات ومعاملات یہاں تک کہ حکومت اور سلطنت کے احکام میں پابند کر دیا ہے تاکہ وہ اپنی اہواء وخواہشات کے حصول میں دین کا چوکھٹا نہ بگاڑ بیٹھیں۔
علامہ عبدالرحمٰن بن خلدون متوفی ۸۰۸ ھ ماہر فلسفہ تاریخ تاریخ وامور سیاست اس حقیقت کا یوں اظہار کرتے ہیں:
فَجَاءتِ الشرائع بحملھم علی ذالك فی جمیع احوالھم عن عبادة او معاملة حتی فی الملك الذی ھو الطبیعی للاجتماع الانسانی فلجرته علی منھاج الدین لیکون الکل محوطا بنظر الشارع۔ (مقدمة ابن خلدون: ۱۹، ومنھاج الواضھ: ص۱۲۱)
’’شرائع اسلامیہ اسی لئے تو آئی ہیں، کہ لوگوں کو تمام احوال میں خواہ وہ عبادات ہوں یا معاملات حتی کہ ملکہ انتظام جو لوگوں کے اجتماع کا ایک طبعی امر ہے۔ دینپر ہی قائم رہنے کی تلقین کریں تا کہ تمام معاملات شارع کی نگرانی میں ہوں۔‘‘
چنانچہ یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ثابت شدہ مطلق عبادات اور عاعات میں اپنی طرف سے قیود عائد کرنے اور ان کی ہیئت کو تبدیل کرنے کو بدعت قرار دیتے تھے۔ معلوم ہے کہ نمازِ چاست (صلوٰۃ الضحی) صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ جیسا کہ صحیح بخاری میں حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا سے مروی ہے۔ اور پھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بھی صلوٰۃ ضحٰی پڑھا کرتی تھیں اور رسول اللہﷺ نے ابو ہریرہ رضٰ کو اس کی پابندی کی وصیت بھی فرمائی تھی۔(صحیح بخاری ج۱، ص۱۵۷) لیکن اس کے باوجود حضرت عبداللہ بن عمر رضٰ صلوٰۃ الضحی باجماعت کو بدعت کہتے ہیں۔ چنانچہ صحیح بخاری میں حضرت مجاہد کہتے ہیں کہ میں اور عروہ بن الزبیر دونوں مسجد میں داخل ہوئے۔
فإذا عبداللہ بن عمر جالس إلی حجرة عائشة واذا الناس یصلون فی المسجد صلوٰة الضحی قال فسألناہ عن صلوتھم فقال بدعة۔ (باب کم اعتمرالنبیﷺ: ج۱، ص۲۳۷۔ والصحیح المسلم مع النووی: ج۱ ص۴۰۹)
’’تو اس وقت جناب عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ کے پاس تشریف فرما تھے اور کچھ لوگ مسجد میں نماز چاشت پڑھ رہے تھے۔ ہم نے حضرت عبداللہ سے ان کی اس نماز کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ یہ بدعت ہے۔‘‘
جب کہ یہ نماز متعدد صحیح سندوں کے ساتھ مروی ہے، جیسا کہ اوپر لکھا گیا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہا نے اس کو بدعت کہا؟ بدعت اس لیے کہا ہے کہ آنحضرتﷺ کے زمانہ میں اس نماز کو باجماعت ادا کرنے کا رواج نہ تھا جب کہ یہ لوگ باجماعت ادا کر رہے تھے۔ چنانچہ امام نووی لکھتے ہیں:
مُرَادَهُ أَنَّ إِظْهَارَهَا فِي الْمَسْجِدِ وَالِاجْتِمَاعَ لَهَا هُوَ الْبِدْعَةُ لَا أَنَّ أَصْلَ صَلَاةِ الضُّحَى بِدْعَةٌ۔ (نووی: ج۱، ص۴۹)
’’حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی مراد یہ ہے کہ چاشت کی نماز کو مسجد میں ظاہر کر کے پرھنا اور اس کے لیے اجتماع اور اہتمام کرنا یہ بدعت ہے نہ یہ کہ نماز چاشت ہی سرے سے بدعت ہے۔‘‘
امام ابو بکر محمد بن ولید الطرطوشی لکھتے ہیں:
ومحملہ عندی علی احد وجھین أما انھم کانوا یصلونھا جماعۃ واما انھم کانوا یصلونھا معا اقذاذا علی ھیئۃ النوافل فی اعقاب الفرائض۔ (کتاب الحوادث والبدع: ص۴۰)
’’حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے یا تو اس لئے بدعت کہا کہ وہ باجماعت چاشت پڑھ رہے تھے، یا اکیلے اکیلے پڑھ رہے تھے، مگر اس طرح جیسے فرائض کے بعد ایک ہی وقت میں نمازی حضرات سنن رواتب پڑھتے ہیں۔‘‘
اسی طرح حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کاوہ واقعہ بھی بڑا مشہور ہے، جسے امام دارمی نے نقل کیا ہے کہ کچھ لوگ کوفہ کی مسجد میں سحری کے وقت حلقہ بنا کر کنکریوں پر سبحان اللہ، اللہ اکبر، لاالہ الااللہ سو سو مرتبہ پڑھ رہے تھے تو حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے انہیں ڈانٹ پلاتے ہوئے فرمایا تھا:
فَقَال فعدوا مِنْ سَیِّاٰتِکُمْ فَأَنَا ضَامِنٌ أَنْ لَا يَضِيعَ مِنْ حَسَنَاتِكُمْ شَيْءٌ وَيْحَكُمْ يَا أُمَّةَ مُحَمَّدٍ، مَا أَسْرَعَ هَلَكَتَكُمْ هَؤُلَاءِ صَحَابَةُ نَبِيِّكُمْ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَوَافِرُونَ، وَهَذِهِ ثِيَابُهُ لَمْ تَبْلَ، وَآنِيَتُهُ لَمْ تُكْسَرْ۔ او مفتحی باب ضلالة۔ (مسند دارمی: ص۳۸)
’’تم اپنی ان کنکریوں پر اپنے گناہ شمار کرو۔ میں ضمانت دیتا ہوں کہ تمہاری نیکیاں ضائع نہیں ہوں گی۔ افسوس ہے تم پر اے امت محمد تم کتنی جلدی ہلاکت میں مبتلا ہو گئے ہو۔ ابھی تو تم میں صحابہ کرامؓ بکثرت حیات ہیں، ابھی تو رسول اللہﷺ کے کپڑے بھی پرانے نہیں ہوئے اور ان کے برتن بھی نہیں ٹوٹے کیا تم ایسا کر کے گمراہی کا دروازہ کھول رہے ہو۔‘‘
اور اسی طرح کے اور بھی بہت سے واقعات محفوظ ہیں۔ لعل فیه کفایة لمن له ادنی درایة۔
اس ساری گفتگو سے ثابت ہوا کہ جو عبادت اور اطاعت شرع میں جس طرح منقول ہو اس کو اسی طرح ادا کرنا چاہیے۔ یعنی اس کواس کی حقیقت پر ہی قائم رکھنا چاہیے اگر اس مطلق عبادت اور اطاعت کو مقید کیا جائے گا یا اس غیر مؤقت کو مؤقت بنایا جائے گا یا اس غیر معین کو معین کر لیا جائے گا تو وہ بدعت بن جائے گی۔ لہٰذا نمازِ تسبیح چونکہ رسول اللہﷺ، صحابہ کرامؓ اور تابعین عظام سے باجماعت پڑھنا ثابت نہیں، نہ مسجد میں، نہ گھروں میں نہ رمضان میں اور نہ غیر رمضان میں، لہٰذا اس کو باجماعت پڑھنا لوگوں کو حیلے بہانوں سے اکٹھا کرنا اور اس کا اہتمام کرنا بدعت کے شائبہ سے خالی نہیں، اس لئے بہتر یہی ہے کہ اس نماز کو انفرادی طور پر ہی پڑھا جائے۔
ثانی یہ کہ اس نماز میں جو تسبیحات پڑھی جاتی ہیں ان کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اس نماز کو اکیلے ہی پڑھا جائے، ورنہ ان کی گنتی میں کمی بیشی ضرور ہو جائے گی کیونکہ یہ ضروری نہیں کہ امام اور مقتدیوں کی رفتار ہم آہنگ اور مساوی ہو کیونکہ کوئی تیز پڑھنے والا ہوتا ہے اور کوئی ٹھہر ٹھہر کر پڑھتا ہے۔ کسی کی زبان تیز چلتی ہے اور کسی کی آہستہ۔ اور امام تسبیحات کی بالجبر بھی نہیں پڑھ سکتا کیونکہ مسنون طریقہ تسبیحات کا بالا خفا ہے۔ اگر بالفرض امام سنت کے خلاف تسبیحات بالجبر بھی پڑھے تب بھی پچھلی صفوں کے لوگوں کو امام کی آواز کا پہنچنا مشکل ہے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ اس نماز میں جماعت کا لحاظ نہیں رکھا گیا۔
بلا شبہ نماز تسبیح نفل نماز ہے اور نوافل کی جماعت احادیث سے ثابت ہے۔ مگر اتفاقی ہے، مثلاً ایک آدمی نفل کی نماز پڑھ رہا ہے اور ایک دوسرا شخص دیکھتا ہے کہ مولوی صاحب یا حافظ صاحب نماز نفل پڑھ رہے ہیں، وہ بھی شامل ہو جاتا ہے تو یہ درست ہے لیکن اس کا اہتمام کرنا اور اعلانات اور دوسرت ترغیبات کے ذریعہ سے مردوں اور عورتوں کو اکٹھا کر کے مسجدوں میں نماز تسبیح باجماعت ادا کرنا بہر حال بدعت ہی معلوم ہوتا ہے، جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے نماز چاشت کی جماعت کو اور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما نے حلقہ بنا کر سبحان اللہ اور لا الہ الااللہ کے ذکر کو بدعت اور گمراہی قرار دی اہے۔ چنانچہ امام ابو اسحاق شاطبی مزیک لکھتے ہیں:
فَإِذَا اجْتَمَعَ فِي النَّافِلَةِ أَنْ يَلْتَزِمَ السُّنَنَ الرَّوَاتِبَ إِمَّا دَائِمًا وَإِمَّا فِي أَوْقَاتٍ مَحْدُودَةٍ وَعَلَى وَجْهٍ مَحْدُودٍ، وَأُقِيمَتْ فِي الْجَمَاعَةِ فِي الْمَسَاجِدِ الَّتِي تُقَامُ فِيهَا الْفَرَائِضُ، أَوِ الْمَوَاضِعِ الَّتِي تُقَامُ فِيهَا السُّنَنُ الرَّوَاتِبُ؛ فَذَلِكَ ابْتِدَاعٌ.
وَالدَّلِيلُ عَلَيْهِ أَنَّهُ لَمْ يَأْتِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا عَنْ أَصْحَابِهِ وَلَا عَنِ التَّابِعِينَ لَهُمْ بِإِحْسَانٍ فِعْلُ هَذَا الْمَجْمُوعِ هَكَذَا مَجْمُوعًا، وَإِنْ أَتَى مُطْلَقًا مِنْ غَيْرِ تِلْكَ التَّقْيِيدَاتِ، مَشْرُوعًا فِي التَّقْيِيدِ فِي الْمُطْلَقَاتِ الَّتِي لَمْ تَثَبُتْ بِدَلِيلِ الشَّرْعِ تَقْيِيدَهَا رَأْيٌ فِي التَّشْرِيعِ، فَكَيْفَ إِذَا عَارَضَهُ الدَّلِيلُ، وَهُوَ الْأَمْرُ بِإِخْفَاءِ النَّوَافِلِ مَثَلًا؟ (الاعتصام للشاطبی: ج۱ ص۲۷۴)
’’جب کوئی نفل نماز سنن رواتب کے التزاقم کے ساتھ خاص طریقہ کے ساتھ ہمیشہ کے لیے یا محدود اوقات میں ان مساجد اور مقامات میں باجماعت پڑھی جائے گی جہاں فرائض اور سنن رواتب (سنن موکدہ) ادا کی جاتی ہیں، تو یہ نماز بدعت ہے۔ نہ صحابہ سے اور نہ تابعین سے منقول ہے اور مطلق عبادات میں اپنی طرف سے قیود لگانا دراصل از خود شریعت سازی کے مترادف ہے۔ بالخصوص جب کہ رسول اللہﷺ نے نوافل میں اخفاء کا حکم دے رکھا ہے۔‘‘
ثالث یہ کہ نماز تسبیح باجماعت اس لئے بھی جائز نہیں کہ اگر اس کو مساجد میں باجماعت پڑھنا شروع کر دیا جائے تو عوام اسے سنت سمجھ لیں گے اور اس کو دین کا شعار تصور کرنے لگا جائیں گے، جیسا کہ امام شاطبی کے حوالہ سے اوپر لکھا جا چکا ہے اور اس کو نوافل کی جماعت کے عموم میں داخل سمجھنا مناسب نہیں۔ جیسا کہ امام ابن دقیق العید کے حوالہ سے اوپر لکھا جا چکا ہے۔ اور فتنہ کے خطرہ سے سلف نے بہت سی طاعات کو بعض دفعہ چھوڑا تھا۔ چنانچہ حضرت عثمان اسی لیے سفر میں پوری نماز پڑھا کرتے تھے کیونکہ عوام یہ نہ سمجھ لیں کہ فرض صرف دو رکعت ہی ہیں۔ کتاب الحوادث والبدع میں ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔(ص۳۹)
رابع یہ کہ اولیٰ یہ ہے کہ نماز تسبیح دن کے وقت زوال کے بعد پڑھی جائے کیونکہ رسول اللہﷺ نے عبداللہ بن عمرؓ کو زوال کے بعد پڑھنے کا حکم دیا تھا۔ (عون المعبود: ج۱ص۱،۵، تحفۃ الاحوذی: ج۱ ص۳۵۱)
لہٰذا ان وجوہات کی رو سے عشاء کے بعد باجماعت نماز تسبیح پڑھنے سے گریز بہتر ہے۔
خلاصہ کلام یہ کہ نماز تسبیح باجماعت مساجد میں ادا کرنا رمضان اور غیر رمضان دونوں میں بدعت ہے، اس سے احتراز لازم ہے اور نفل نماز کی جماعت کے عموم سے استدلال کرنا یا تراویح کی نماز پر قیاس کرنا درست نہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب