السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
برمنگھم سےمحمد اسلم اور ارشاد لکھتے ہیں آپ قانون شفعہ پر شریعت کے مطابق روشنی ڈالیں کہ اسلام میں شفعہ جائز ہے یا نہیں ؟ اگر جائز ہے تو کس کو اور کن حالات میں شفعہ اسلام میں کتنے عرصہ تک کرنا جائز ہے۔ کچھ دن یا مہینے یا سال تک؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
شفعہ شریعت میں اس حق کو کہتے ہیں جو کوئی شخص کسی دوسرے شخص کے مقابلے میں کسی غیر منقولہ جائیداد کو خریدنے میں رکھتا ہے۔غیر منقولہ جائیداد میں زمین‘مکان ‘دکان ‘کنواں ‘اور تالاب وغیرہ شامل ہیں۔ اسلام میں شفعہ درج ذیل تین آدمیوں کے لئے کرنا جائز ہے۔
۱۔شریک: وہ شخص جو کسی دوسرے آدمی کی زمین یا مکان میں شریک ہے اور وہ جائیداد تقسیم نہیں ہوئی ایسی صورت میں اگر وہ شخص اپنے حصے کی جائیداد فروخت کرتا ہے تو اس کے دوسرے ساتھ کو یہاں شفعہ کاحق حاصل ہے یعنی عدالت میں یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ میں اس جائیداد کو خریدنے کا زیادہ حق رکھتا ہوں کیونکہ میں اس میں شریک ہوں۔
۲۔ خلیط: وہ شخص ہے جو کسی جائیداد کے مالک کے ساتھ شریک تو نہیں لیکن بعض مشترکہ چیزوں میں وہ دونوں ایک طرح کا حق رکھتےہیں مثلاً دونوں کا راستہ ایک ہے‘ پانی مشترک ہے۔ ان میں سے اگر ایک جائیداد فروخت کرتا ہے تو دوسرے کو اس کے خریدنے کا زیادہ حق ہے۔ کوئی غیر شخص خریدے تو یہ شخص اس کےخلاف حق شفعہ کا دعویٰ دائر کرسکتا ہے۔
یہ دونوں صورتیں تو متفق علیہ ہیں۔ ان میں کوئی اختلاف نہیں لیکن تیسری شکل میں اختلاف ہے۔
۳۔ جار: یعنی پڑوس کی وجہ سے کسی کو شفعہ کا حق حاصل ہوجائے۔ مثلاً دونوں کی زمین ایک دوسرے سے متصل ہے‘ مکان ایک دوسرے کے ساتھ ملے ہوئے ہیں تو یہاں پڑوسی کو دوسروں کے مقابلے میں خریدنے کا استحقاق ہوگا لیکن علماء کے نزدیک جب رسول اکر م ﷺنے یہ فرمادیا کہ
’’الشفعة فی کل مالم یقسم فاذا وقعت الحدود حرمت الطرق فلا شفعة۔‘‘ (فتح الباري ج ۵ کتاب الشفعة باب الشفعة فی کل مالم یقسم ص ۱۹۲ رقم الحدیث ۲۲۵۷)
’’یعنی شفعہ تو اس غیر منقولہ جائیداد میں ہے جو شرکاء میں تقسیم نہیں ہوئی ۔ جب حدود متعین ہوجائیں اور راستے مختلف ہوجائیں تو پھر شفعہ کا حق نہیں۔‘‘
تواس حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جب جائیداد تقسیم ہوجائے اور راستے بھی الگ الگ ہوں توپھر شفعہ کا حق باقی نہیں رہتا جب کہ دوسروں کے نزدیک پڑوسی کو محض متصل ہونے کی وجہ سے شفعہ کا حق مل جائے گا۔
جو جائیداد مسجد یا کسی مذہبی اور خیراتی ادارے کےلئے وقف کی گئی ہو اس میں حقہ شفعہ نہیں ہو گا اسی طرح جو جائیداد حکومت کسی قانون کے تحت حاصل کرے اس میں بھی حق شفعہ نہیں ہوگا۔
جہاں تک شفعہ کےوقت کا تعلق ہے تو جو آدمی موجود ہو اسے جونہی اس جائیداد کےفروخت ہونے کا علم ہوتو اسے فوراً شفعہ کردینا چاہئے یا گواہ بنا کر حق شفعہ کا دعویٰ دائر کرنے کا اعلان کردینا چاہئے اور جو شخص غیر حاضر ہے یا اسے اس سودے کا علم نہیں ہوا تو اسے جب پتہ چلے یا جب وہ واپس آئے تو اسے شفعہ کا حق حاصل ہوگا۔ اگر علم ہونے کے باوجود اس نے نہ دعوی کیا نہ گواہوں کےسامنے اعلان یا اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ حق شفعہ کرے گا تو بعد میں ایسے شخص کو حق شفعہ حاصل نہ رہے گا اسے علم ہوتے ہی فوراً اپنے ارادے کا اظہار کرنا چاہئے تھا۔ شفعہ کے حق کے تبصرے میں اصل بنیاد وہ حدیث ہے جو ہم نے اوپر بیان کی ہے۔
پاکستا ن میں حق شفعہ کے سابقہ قوانین شریعت اسلامیہ کےمطابق نہ تھے۔ ایک انگریز حکومت کے زمانے کا قانون تھا یعنی حق شفعہ پنجاب مجریہ ۱۹۳۱ء کا ایکٹ نمبر ۱۔ دوسرا شفعہ شمالی مغربی سرحدی صوبہ مجریہ ۱۹۵۰ء کا ایکٹ نمبر ۱۴۔
اب موجودہ حکومت نے شفعہ کا آرڈر مجریہ ۱۹۸۰ ء جاری کیا ہے جو اسلامی مشاورتی کونسل نے شریعت اسلامی کی روشنی میں تیار کیا ہے اس کے نفاذ کےساتھ ہی پہلے تمام قوانین اور ایکٹ جو شفعہ کے بارےمیں تھے وہ منسوخ کردیئے گئے ہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب