السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مغربی جرمنی سےایک صاحب پوچھتے ہیں ۔ (یہ سوال امیر جمیعت کےدورہ جرمنی کے دوران انہیں دیا گیا )
نفسانی خواہشات کیا ہوتی ہیں؟اسلام نے کس قسم کی خواہشات کو کم کرنےکا حکم دیا ہے؟ نفسیاتی طورپر کچھ خواہشات ایسی ہیں جن کو کم کیا جائے تو قوم ترقی نہیں کر سکتی۔ کیا یہ درست ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اسلام ایک مکمل نظام حیات ہے۔ جو قرآن اور رسول اکرم ﷺ کے اسوہ حسنہ کی شکل میں ہمارے پاس موجود ہ محفوظ ہے اور یہ نظام زندگی کےتمام شعبوں پر حاوی ہے۔ کوئی بھی ایسا میدان نہیں جس کے بارےمیں یہ کہاجائے کہ یہاں قرآن یا اسلام نے ہماری راہ نمائی نہیں کی یا ہمیں دستورالعمل نہیں دیا۔ اب اسلام کے نظام ‘ قانون اور ضابطے سےباغی ہو کر اپنی مرضی ومنشا کےمطابق زندگی کا لائحہ عمل بنانا یہی نفس کی خواہشات ہیں۔جس مقام پر بھی قرآنی ضابطے اور خدائی قانون کو توڑا جائے گااور رسول اکرم ﷺ کےطریقے کو چھوڑ دیا جائے گا وہاں یقیناً نفسانی خواہشات کا دخل ہوگا۔ کسی منکر کا ارتکاب کیا جائے یا کسی فرض کو ترک کیا جائے نفس کی پیروی کےنتیجے میں ہی ایسے ہوگا ۔ قرآن نے نفس یا اس کےاتباع کےبارےمیں متعدد مقامات پر تذکرہ کیا ہے۔ چند ایک کا ذکر یہاں مناسب ہوگا۔
ایک مقام پر فرمایا ’’ہم اگر چاہیں تواسے بلند کردیں لیکن وہ خود ہی زمین کی طرف گرتا جارہا ہے اور اپنے نفس کی پیروی میں لگا ہوا ہے۔‘‘ (الاعراف:۱۸۶)
’’اس شخص کی پیروی نہ کرنا جس کا دل ہمارے ذکر سے غافل کردیا گیا ہے اور وہ اپنے نفس کی خواہشات کےپیچھے لگاہواہے۔‘‘ (الکھف :۱۲۸)
’’تم اپنی نفسانی خواہشات کی بناپر ناانصافی نہ کرنا۔‘‘ (النساء:۱۳۵)
’’کافر لوگ محض گمان کی پیروی کرتےہیں یا اس چیز کی جو ان کے نفس چاہتےہیں۔‘‘ (النجم:۲۳)
’’کیا آپ کو اس شخص کا پتہ ہے جس نے نفس کی خواہش کواپنا معبود بنالیا ہے۔‘‘(الجاثیه:۲۳)
یہ اور اس طرح کی متعددآیات میں نفسانی خواہشات کی پیروی کرنے کی مذمت کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کےاحکام و فرائض جن میں نماز’روزہ’حج’زکوٰۃ اور تمام حقوق العباد شامل ہیں ان کا انکار یا ترک بھی اکثر اوقات نفسانی خواہشات کی پیروی کی وجہ سے کیا جاتا ہے۔ اس طرح برائیوں کا ارتکاب جیسے زنا ’شراب اور جوا ’یا ظلم ’ناانصافی اور بداخلاقی کےتما م اعمال بھی خواہشات نفس کی پیروی میں ہی کئے جاتے ہیں۔آپ مزید تفصیل کےلئے قرآن کی مذکورہ آیات کا مطالعہ کریں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب