السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کویت سے امین الدین قاضی لکھتے ہیں ماہ جولائی کا شمارہ دیکھ کر ذہن میں ایک سوال آیا سو پوچھ لینا چاہتا ہوں کہ ’’ صرا ط مستقیم‘‘ کے آخری صفحے میں ایک غیر مسلم کا جو اشتہار شائع ہوا ہے کیا یہ جائز ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
شریعت اسلامیہ میں کاروبار یا لین دین کے بارے میں ایسی کوئی پابندی نہیں ہے کہ آپ کسی غیر مسلم سے کوئی معاملہ سرے سےکر ہی نہیں سکتے بلکہ کتاب وسنت میں اصل اصول یہ کہ کسی حرام کاروبار میں کسی قسم کی شرکت یا معاونت جائز نہیں اور حرام کاروبار چاہے مسلمان کرے چاہے غیر مسلمان وہ بہرحال حرام ہوگا۔
’’ صراط مستقیم ‘‘ میں جو اشتہار شائع ہو اوہ ایک غیرمسلم کے کاروبار یا تجارت کے بارےمیں ہے اور اس کا روبار میں بظاہر کوئی چیز حرام نہیں تھی۔ ہاں اس اشتہار میں اگر حرام کام کی تشہیر ہو یا حرام چیزیں خریدنے یا بیچنے کی ترغیب ہو وہ بہرحال ناجائز ہے لیکن کسی غیر مسلم ہونے کی وجہ سے کوئی چیز حرام نہیں ہوجاتی۔رسول اکرمﷺ خود یہودیوں سے لین دین کرتے تھے۔ صحابہ کرام ؓ کے غیر مسلموں کےساتھ کاروباری معاملات تھے۔
بخاری شریف میں حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے‘آپ فرماتی ہیں
"اشتری رسول الله ﷺ من یهودی طعاما و رمضه درعه۔" (فتح الباري ج ۵ کتاب المسلم باب الرهن ص ۱۸۸ رقم الحدیث ۲۲۵۲)
’’ کہ رسول اکرم ﷺ نے اپنی درعہ گروی رکھ کر ایک یہودی سے کھانے کی چیزیں خریدی تھیں۔‘‘
اس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ جائز اور حلال کاموں میں غیرمسلموں سے لین دین اور معاملہ کرنے میں کوئی شرعی پابندی نہیں ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب