السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
آج کل اسلامی سزا ہاتھ وغیرہ کاٹنے سے یہ بہتر نہیں کہ جیل کی سزا دی جائے تاکہ کسی کا ہاتھ ضائع نہ ہو۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
دنیاوی زندگی کے تجربات سےہم اچھی طرح سمجھ چکےہیں کہ جو چیز یا مشین کوئی شخص بناتا ہے اس میں خرابی یا نقص کی صورت میں اس کی مرمت یا درستی کےلئے اس کا بنانے والا ہی سب سے زیادہ واقف ہوتاہے۔ اسی طرح کائنات کا یہ نظام اللہ تعالیٰ کا قائم کردہ اور تمام چیزیں اس کی پیداکردہ ہیں۔وہی اس کےبگاڑ اور فساد کی اصلاح کےطریقے بہتر جانتا ہے۔ انسانوں کی فطرت سےوہ سب سے زیادہ واقف ہے۔ارشاد ربانی ہے:
﴿ أَلا يَعلَمُ مَن خَلَقَ وَهُوَ اللَّطيفُ الخَبيرُ ﴿١٤﴾... سورةالملك
’’خبردار اس نے جو پیدا کیا اس کو جانتا ہے اور وہ باریک بیں اور خبیر ہے۔‘‘
جب ہم بیماری کے علاج کے لئے ڈاکٹر کی طرف اور مشین کی درستی کےلئے انجینئر کی طرف رجوع کرتے ہیں تو پھر اپنے نفوس کے علاج اور معاشرے کی خرابیوں کی درستی کےلئے خالق کون ومکان کی طرف رجوع کیوں نہ کریں۔ ہماری عقلیں ہر بات کی تہہ تک پہنچنے سے قاصر ہیں۔ اس لئے کیا یہ بہتر نہیں کہ ہم مشرقی یا مغربی عقل پر انحصار کی بجائے خالق کون ومکان کےعلاج کو قبول کریں۔ ہاتھ کاٹنے کی سزا چوری کے مجرم کےلئے اس کے خالق نے مقرر کی ہے جبکہ اس میں تبدیلی کی باتیں ہماری ناقص عقل کی اختراعات ہیں۔ اگر ہم یہ کہہ دیں کہ یہ کہاں کی عقلمندی ہے کہ ایک آدمی اپنے اہل و عیال سے دور جیل میں ڈال دیا جائے اور اس کی آزادی سلب کرکے اسے ایک خاندان سے چھین لیاجائے اس سےبہتر ہے کہ فوراً جرم کی سنگینی کا احساس دلانے کیلئے ہاتھ کاٹ دیا جائے جو دوسروں کے لئے عبرت بھی بنے اور اس کےبعد اسے اپنے گھر میں آزادی کے ساتھ اپنی اصلاح اور کاروبار کی اجازت دیدی جائے۔ اس لحاظ سے بھی اسلامی سزاہی بہتر معلوم ہوتی ہےلیکن اس کے باوجود اگر ہم کوئی فلسفہ اپنی طرف سے نہ بھی نکالیں تو بھی خالق کائنات کا حکم ہی ہمارے لئے کافی ہے ۔ فطرت کے رموز وہی بہتر جانتا ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب