السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ویلبرٹ (مغربی جرمنی ) سے افتخار احمد لکھتے ہیں
(۱)فرقہ کی تعریف کیا ہے۔ پاکستان میں سرگرم عمل مختلف دینی گروہ مثلاً دیوبندی ‘بریلوی‘تبلیغی جماعت‘جماعت اسلامی‘ اہل حدیث’شیعہ اور پرویزی وغیرہ علیحدہ علیحدہ فرقے ہیں اور کیا ایک عام مسلمان کے لئے ان میں سے کسی ایک کی اطاعت ضروری ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ایک فرد کی بجائے زیادہ لوگوں کے مجموعےکو فرقے کہاجاسکتاہے۔ لغوی اور شرعی طورپر گروہ‘ جماعت اور خاندان و قبیلے پر فرقے کالفظ استعمال کیا گیا ہے۔
مختلف مقاصد کے حصول کےلئے جماعتوں یا تنظیموں کا وجود میں آنا یا کسی خاص کام کے لئے کسی ایک جماعت کو قائم کرناشرعاً نہ غلط ہے اور نہ نقصان دہ۔ خود قرآن کریم میں جس ایک مقام پر فرقے کا لفظ آیا ہے وہاں بھی مراد ایک مجموعہ یا جماعت ہے۔
چنانچہ ارشادربانی ہے:
﴿فَلَولا نَفَرَ مِن كُلِّ فِرقَةٍ مِنهُم طائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهوا فِى الدّينِ...﴿١٢٢﴾... سورةالتوبة
’’ تو ایسا کیوں نہ کیا جائے کہ ان کے ہر فرقے میں سے ایک طائفہ جایا کرے تاکہ وہ دین کی سمجھ حاصل کریں۔‘‘
اب یہاں فرقے سے مراد ایک بڑی جماعت اور طائفہ سے مراد ایک چھوٹی جماعت ہے ۔یعنی مختلف علاقوں میں جو مسلمان جماعتوں کی شکل میں رہتے ہیں وہ سارے نہیں بلکہ ان میں سے کچھ چھوٹی جماعتیں اللہ کی راہ میں نکلیں۔ بعض نے یہاں فرقے سے مراد خاندان اور قبیلے لیا ہے کہ مختلف مسلم خاندانوں اور قبیلوں سے کچھ لوگ اپنے آپ کو اللہ کی راہ میں وقف کردیں تو قرآن نے یہاں اس مفہوم میں فرقے کے لفظ کو معیوب نہیں سمجھا۔ ہاں قرآن میں جس چیز کو معیوب سمجھا گیا اور اس سے روکا گیا وہ فرقہ بندی اور گروہ بندی ہے جس سے امت کی وحدت ختم ہوجاتی ہے۔ اور مسلمانوں میں انتشار و افتراق پیدا ہوتا ہے جس کے نتیجے میں ان کی قوت ختم ہوجاتی ہے۔قرآن میں ‘‘ لاتفرقوا’’ کے الفاظ سے اس فرقہ بندی سے منع کیا گیا ہے جیسا کہ اس وقت امت کی حالت ہے کہ مسلم جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہیں اور مسلم ممالک ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار ہیں۔
پاکستا ن میں جن مختلف جماعتوں یا فرقوں کا آپ نے ذکر کیا ہے ان میں سے دعویٰ تو ہر ایک کا یہی ہوگا کہ وہ اسلام کی ترجمان اور کتاب و سنت کی داعی ہے لیکن مسئلہ نام یا فرقے کا نہیں کیونکہ فرقہ بندی ‘ جماعت سازی اور تنظیموں کے قیام کوکوئی شخص روک نہیں سکتا۔ ہر شخص کا یہ حق ہے کہ وہ دین کی دعوت پیش کرے اور قرآن و سنت کی بنیاد پر اپنی تنظیم یا جماعت کی تشکیل کرے لیکن مشکل اس وقت پیش آتی ہے جب ایک عام مسلمان ان سب کے دعوے سنتا یا پڑھتا ہے تو اس کے لئے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ وہ کس کا ساتھ دے یا کس کی دعوت کو قبول کرے۔ فرقوں اور جماعتوں کی کثرت کے موقع پر ایک شخص کے لئے یہ فیصلہ کرنا آسان نہیں لیکن دیگر مشکلات کی طرح اس مشکل کو حل کرنے کےلئے بھی قرآن و حدیث کی طرف رجوع کرناچاہئے کہ وہ اس کا کیا حل پیش کرتے ہیں اور جب امت میں ایسی صورت حال پیدا ہوجائے تو ایک مسلمان کو کس بنیاد پر فیصلہ کرنا چاہئے ۔ اس سلسلہ میں قرآن ہماری مکمل راہ نمائی کرتا ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
﴿يـٰأَيُّهَا الَّذينَ ءامَنوا أَطيعُوا اللَّهَ وَأَطيعُوا الرَّسولَ وَأُولِى الأَمرِ مِنكُم فَإِن تَنـٰزَعتُم فى شَىءٍ فَرُدّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسولِ إِن كُنتُم تُؤمِنونَ بِاللَّهِ وَاليَومِ الءاخِرِ ذٰلِكَ خَيرٌ وَأَحسَنُ تَأويلًا ﴿٥٩﴾... سورة النساء
’’ اےایمان والو! اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور اپنے امیرکی پس اگر کسی چیز میں تمہارے درمیان اختلاف ہوجائے توپھر رجوع کرو اللہ اور رسول کی طرف اگر تم اللہ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو یہ تمہارے لیے بہتر ہے اور انجام کے لحاظ سے احسن ہے۔‘‘
اب یہاں مسلمانوں کی اس بات کا پابند کیا گیا ہے کہ وہ اللہ کی اطاعت کریں اور رسول کی اطاعت کریں اور اسلامی ریاست کے خلیفہ اور حکمران کی پیروی بھی ایسی صورت میں لازم ہے جب وہ اللہ اور رسول کی اطاعت کے دائرے کے اندر رہ کر حکمرانی کرے اور اگر کسی بات میں اختلاف ہوجائے یعنی تنازعے کی شکل پیداہو جائے تو خود اپنی مرضی یا رائے یا محض اکثریت سے فیصلہ نہیں ہوگا بلکہ ایسی صورت حال میں اللہ کی کتاب اور رسول کی سنت کی طرف رجوع کرکے فیصلہ ان سے کرانا ہوگا۔
خود رسول اللہ ﷺ نے جب امت کو فرقوں میں بٹ کر اپنی قوت اور رعب ختم کرنے کے نقصان سے آگاہ کیا تو اس وقت بھی یہی ارشاد فرمایا تھا کہ جتنے گروہ اور فرقے ہوں گے بڑےبڑے ناموں اور وعدوں کے باوجود ضروری نہیں کہ حق بھی ان کے ساتھ ہو بلکہ وہ سارے کے سارے گمراہ ہوسکتے ہیں ہاں سوائے ان کے جو اس دین پر قائم رہیں گے جس پر آج میں اور میرے صحابہ ہیں۔ تو کسی فرقے جماعت یا تنظیم کےوجود یا عدم وجود سے زیادہ اصل قابل توجہ بات یہ ہے کہ ان کی دعوت کیا ہے۔ فرقہ بندی اور گروہ بندی کی شکل میں عام مسلمان کا یہ فرض ہے کہ وہ اندھی تقلید’شخصیت پرستی‘ رسم و رواج اور جذباتی کیفیات سے الگ تھلگ ہو کر یہ سوچیں کہ قرآن و حدیث اور صحابہ کرام کی تعلیمات کیا ہیں۔ جو جماعت یا فرد یا تنظیم یا ادارہ وہ خاص دعوت پیش کرتا ہے اس سے تعاون بھی کرنا چاہئے اور اس کی دعوت کو قبول کرکے اس کی اشاعت کے لئے کوشش بھی کرناچاہئے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ قرآن و سنت اور صحابہ کے تعامل کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ اگر مسئلے کا ثبوت ان مراجع سے نہیں ملتا تو اس کی شرعی حیثیت مشکوک ہوسکتی ہے۔ اس سلسلے میں آپ کو مزید روشنی حاصل ہوسکتی ہے۔ آپ قرآن کا سادہ ترجمہ پڑھیں’بخاری و مسلم اور دوسری صحیح احادیث کا مطالعہ کریں اور سیرت البنی اور سیرت صحابہ پر ثقہ اور معتبر کتابوں کو پڑھیں۔ اس طرح دین اور بنیادی عقائد و اعمال کا اجمالی خاکہ پوری طرح آپ کے سامنے آجائے گا۔
جن فرقوں اور جماعتوں کے نام آپ نے تحریر کئے ہیں ان مین دیو بندی بریلوی تو برصغیر میں حنفی مذہب ہی کی دو الگ الگ شاخیں ہیں۔ فقہی طور پر دونوں حنفی ہیں۔ بعض عقائد میں دیوبند سے تعلق رکھنے والے علماء دیوبند کا (دیوبند ایک دینی درسگاہ کا نام ہے) بریلوی علماء سے اختلاف ہوا (بریلوی کی نسبت بریلی شہر کی طرف ہے۔ اس گروہ کے بانی مولانا احمد رضا خان آف بریلی ہیں ) تو اس طرح دو گروہ وجود میں آگئے جو بعد میں الگ الگ فرقے کی حیثیت سے معروف ہوگئے۔
جماعت اسلامی ایک سیاسی تنظیم ہے جو اسلامی نظام کی داعی ہے اور اس میں مختلف مکاتب فکر کے لوگ شامل ہیں ۔ اہل حدیث کی دعوت خالص کتاب و سنت کی اتباع ہے وہ توحید کو ہر قسم کے چھوٹے بڑے شرک کی آمیزش سے اور سنت کو بدعت سے پاک کرنے کی دعوت دیتےہیں۔ وہ حنفی ‘شافعی ‘مالکی‘اور حنبلی کی طرح ایک امام کی تقلید نہیں کرتے بلکہ ان کا موقف یہ ہے کہ چاروں مشہور اماموں اور دوسرے بڑے امام جو مختلف زمانوں میں ہوئے ہیں ان سب کے افکار و اجتہادات کی قدر کرنی چاہئے اور کسی ایک کی تقلید میں تعصب کی بجائے جس امام کے دلائل قوی ہوں اور قرآن و حدیث سے قریب تر ہوں اس کی بات کو بلاچوں و چرامان لینا چاہئے اور علماء کرام کو اس سلسلے میں دلائل و شواہد کی روشنی میں فیصلہ کرناچاہئے۔
جہاں تک شیعہ کا تعلق ہے ان میں متعدد فرقے ہیں لیکن صحابہ کرام سے بغص و عناد رکھنے والے او ر ان کی شان میں گستاخی کرنے والے صحیح مسلمان نہیں ہوسکتے اور ان کے عقائد گمراہ کن ہیں۔ ایسے لوگوں سے خیرو بھلائی کی توقع نہیں کی جاسکتی جو ان پاک ہستیوں کا احترام بھی نہ کریں جن کے واسطے سے یہ دین دنیا میں پھیلا او رصحیح شکل میں ہم تک پہنچا۔
پرویزی نہ کوئی فرقہ ہے نہ جماعت یہ مسٹر غلام احمد پرویز صاحب کے پیروکاروں اور مداحوں کا نام ہے جو فتنہ انکار حدیث کو آگے بڑھار ہے ہیں۔ حدیث کے بغیر قرآن کو سمجھنا نہ ممکن ہے نہ معقول۔ دراصل یہ اعمال سے پیچھا چھڑانے کا ایک بہانہ ہے کہ حدیث کا انکار کردیا جائے اور قرآن کی من مانی تفسیر و تعبیر کرکے دین کا حلیہ بھی بگاڑ لیا جائے۔ یہ انتہائی خطر ناک تحریک ہے جس سے بچنا ضروری ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب