سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(236) بنک سے سود لے کر کسی غریب کو دیا جا سکتا ہے؟

  • 14086
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 898

سوال

(236) بنک سے سود لے کر کسی غریب کو دیا جا سکتا ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

براکل مغربی جرمنی سے محمد اشفاق نعیم پوچھتے ہیں

جرمن میں بینکوں کا ایک اصول ہے کہ اگر کسی آدمی  کی رقم نارمل اکاؤنٹ یعنی بغیر سودی اکاؤنٹ میں ایک سال تک پڑی رہے تو بینک والے پانچ فیصد منافع دیتےہیں جب کہ سودی اکاؤنٹ میں ۱۱‘۱۲‘ اور ۱۴ فیصد تک منافع دیا جاتاہے یہ منافع لینا جائز ہے یا نہیں؟ اگر یہ منافع اپنی ذات پر خرچ کرنے کی بجائے پاکستا ن میں کسی غریب آدمی کو دے دیا جائے یا تحفہ وغیرہ دے دیا جائے تو یہ درست ہے یا نہیں؟ یا یہ پانچ فیصد بینکوں سے لیا ہی نہ جائے۔ اگر لے گیا ہوتو اس کا کیا کیا جائے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بینکوں سے سود کی رقم وصول کرنے کے بارے میں ایک فتویٰ ’’صراط مستقیم‘‘ کی فروری کی اشاعت میں آچکا ہے۔ مختصر یہ کہ یہ منافع پانچ فی صد ہو یا چودہ فیصد وہ بہرحال سود ہے اس لئے اس کا وصول کرنا یا لے کے آگے تقسیم کرنا بنیادی طور پر جائز نہیں۔ ہاں اگر لاعلمی سے رقم پر سود بن گیا تو اسے لے کر مستحق لوگوں کو دے دیا تو بعض علماء نے اس کی اجازت دی ہے لیکن اس کی عادت  بنا لینا یا اس کو بنیاد بنا کر سود کی رقم کی وصولی شروع کردینا جائز نہیں۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ صراط مستقیم

ص514

محدث فتویٰ

تبصرے