سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(230) سور کا گوشت حرام کیوں ہے؟

  • 14080
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 3265

سوال

(230) سور کا گوشت حرام کیوں ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہیرٹ براک سے مغربی سے بشیر احمد بھٹہ دریافت کرتےہیں

سور کے گوشت کی حرمت کے بارے میں روشنی ڈالیں کہ خداتعالیٰ نے کن وجوہات کی بنا پر اسے حرام قرار دیا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سور کے گوشت اور شراب کی حرمت کے بارے میں صراط مستقیم کے دسمبر ۱۹۸۲ء کے شمارے میں مفصل بحث شائع ہوچکی ہے۔ اب اختصار کے ساتھ پھر اس پر روشنی ڈال دیتے ہیں۔

شراب’خنزیر ’جوا  اور سود جیسی اشیاء کے حرام ہونے کی وجہ یا سبب جاننے سے پہلے دوباتوں کا جاننا بہرحال ضروری ہے۔

ایک یہ کہ ہر انسان کے لئے یہ جاننا نہ تو لازمی ہے اور نہ ہی ممکن ہے کہ کوئی چیز کیوں حلال ہے اور کیوں حرام کی گئی۔ حرام چیزوں کے نقصانات یا مضرتیں معلوم کرنا ہر انسان کے بس کی بات نہیں ایک ہی چیز کا نقصان ایک آدمی علم یا تجربے کی بنیاد پر معلوم کرلیتا ہے جب کہ دوسرے کے پاس یہ دونوں چیزیں نہیں ہوتیں۔ اس لئے اسے ان کے نقصان  کا کوئی اندازہ نہیں ہوتا۔ اسی طرح ایک زمانے میں ایک چیز کے نقصان دہ پہلو ظاہر نہیں ہوتے جب کہ دوسرے زمانے کے ماہرین اس کے نقصانات کے اسباب معلوم کرلیتے ہیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ جب ہر انسان کے بس میں ایک چیز کی اصلیت یا ماہیت معلوم کرنا نہیں اور نہ ہی اس کے پاس اتنا علم ہے تو پھر اسے کس چیز پر انحصار کرنا ہوگا۔ ظاہر ہے وہ صرف اور صرف وحی الٰہی ہے۔ اگر ایک شخص اللہ پر ایمان رکھتا ہے اس کا عقیدہ ہے کہ قرآن اللہ کی سچی کتاب ہے اور محمدﷺ اللہ تعالیٰ کے سچے نبی اور رسول  ہیں۔ ایسے شخص کو حلال و حرام کا اختیار بھی اللہ وحدہ لا شریک ہی کودینا ہوگا۔ کسی عالم یا درویش یا حاکم و بادشاہ کو ہرگز اختیار نہیں کہ وہ اشیاء کی حلت و حرمت کے فیصلے کرتا  پھرے۔ اس لئے اگر ایک  مسلمان کو کسی چیز کی حلت وحرمت کے بارے میں شبہ ہے تو  اسے پہلے قرآن و اسلام کے بارےمیں اپنے عقیدے کا جائزہ لینا چاہئے اور اگر ان کی سچائی پر اس کا ایمان پختہ ہےتو پھر خالق ارض   وسما کے ہر حکم کے سامنے اسے سرتسلیم خم کرنا پڑے گا چاہے اس کی حکمت  اور علت اس کی سمجھ میں آجائے یا نہ آئے کیونکہ اس کے حلال و حرام ہونے کی سب سے بڑی اور واضح وجہ تو یہ ہے کہ اسے حلال و حرام اس ذات نے ٹھہرایا ہے جو ان ساری چیزوں کو پیدا کرنے والا اور ان کے  فوائد و نقصانات کا سب سے زیادہ علم رکھنے والا ہے۔

جہاں تک ایک غیر مسلم کا تعلق ہے کہ وہ کس طرح ان چیزوں کے فائدوں یا نقصانات  کا قائل ہوسکتا ہے جب کہ وہ قرآن یا اسلام کو تو تسلیم ہی نہیں کرتا۔ یہاں بھی پہلی بات تو وہی ہے کہ ایسے شخص کو پہلے اسلام کا صحیح تعار ف کرائیں اور بتائیں کہ اسلام میں یا مسلمانوں کے نزدیک حلال و حرام کرنے کی اصل اتھارٹی کون ہے اور کیوں ہے اور یہ کہ مسلمان مقدس کتاب قرآن کے بارے میں ایک فیصلہ کن کتاب کی حیثیت سے کیا عقیدہ رکھتےہیں اور اس کتاب کی سچائی یا حقانیت کے لئے ان کے پاس  کون سے دلائل ہیں۔ کسی بھی شخص کو بنیادی اسلامی عقائد اور تصورات  کا قائل کئے بغیر آپ محض چند باتوں کا الگ سے قائل نہیں کرسکتے۔ اسلام زندگی کا ایک مربوط اور مستقل  نظام پیش کرتا ہے۔ اگر اس کے کسی جز کو الگ کرکے آپ کوئی فیصلہ کرناچاہیں گے تو اس میں خاصی مشکلات پیش آئیں گی ۔ اس لئے قرآنی احکام کی صداقت اور ہمہ گیریوں کے اثبات کے بغیر اس کے کسی جزوی حکم کی حکمت باآسانی  سمجھ میں نہیں آسکتی ۔ جس دور میں قرآن نازل ہواتھا’اس وقت کسی چیز کی حکمت یا اصول معلوم کرنے کے لئے آلات یا مشینیں آج کی طرح نہ تھیں تو پھر کس طرح قرآن نے دنیا میں اپنی سچائی تسلیم کروائی اصل سمجھنے والا تو یہی نکتہ ہے  مگر اس کے باوجود  اہل علم کا ہر دور میں یہ فرض ہوتا ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے اللہ کی طرف سے حرام کردہ چیزوں کے نقصانات اپنے علم اور تجربات کی روشنی میں واضح کریں اور اس کےلئے دور جدید کی تمام ایجادات اور مشینریوں سے فائدہ اٹھائیں تا کہ اسلام کی حقانیت اور سچائی پر لوگوں کا یقین اور زیادہ پختہ ہو۔

اب ہم حلت و حرمت کے سلسلے میں قرآن حکیم کے ایک ضابطے کا ذکر کرتےہیں اور وہ یہ ہے کہ

﴿وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبـٰتِ وَيُحَرِّ‌مُ عَلَيهِمُ الخَبـٰئِثَ...﴿١٥٧﴾...سورة الاعراف

یعنی اللہ کا نبی ﷺ لوگوں کے لئے پاکیزہ چیزوں کو حلال اور گندی چیزوں کو حرام بتلاتا ہے اب ظاہر ہے کہ  یہ فیصلہ خالق کائنات ہی کرسکتا ہے جو حکیم و خبیر ہے اور کسی چیز کے پاک و پلید ہونے کا علیم ہے لیکن ضابطہ یہ دے دیا کہ پاکیزہ چیزیں ہی حلال ہیں اور گندی چیزیں حرام۔

گندی اور خبیث چیزیں چاہئے ظاہری گندگی ہوچاہے باطنی وہ سب حرام ہیں۔ اب خنزیر کو لیجئے اس میں دیگر  مضرات کے علاوہ ظاہری گندگی بھی ہے۔ اس کی شکل و صورت’ اس کا رہن سہن اور اس کے کھانے پینے ان سب چیزوں میں گندگی یا کراہت کے پہلو نمایا ں ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ دور جدید کے ماہرین نے اس کے گوشت کے مضر اثرات پر بھی تحقیقی کام کیا اور اس کے گوشت سے جو بیماریاں انسانی جسم کے اند ر پیدا ہوتی ہیں ان کی نشاندہی کہ ہے جن میں سے کچھ ذیل میں دی جارہی ہیں

 کہتے ہیں جو خنزیرLUM COIL BALANTID ۱۔ایک چھوٹا سا کیڑا جسے کی انتڑیوں میں رہتا ہے اور کئی متعددی بیماریوں کا سبب بنتا ہے۔

 یہ بیماری بھی خنزیر اور کتے کی وجہ سے انسان ‘‘WELL ,S DISEASE’’۲۔ تک پہنچتی ہے۔

’’ یہ بیماری خنزیر کو عام طور پر ہوتی ہے اور پھر اس  کے ERYSPELOLD’’۳۔

ذریعہ انسان کو منتقل ہوجاتی ہے۔

’’ یہ ایک لمبا کیڑا ہوتا ہے جو انتڑیوں سے TAENIA SOLLUM ۴۔‘‘

خوراک چوس لیتا ہے اور پھر بیماری کا سبب بنتا ہے۔

یہ اور اس طرح کی متعدد بیماریوں کی اطباء نے نشانی دہی کی ہے مگر  اس کے  باوجود ہم یہ بات  واضح کردینا چاہتے ہیں کہ ہمارے نزدیک اس کی حرمت کی اصل وجہ اس ذات کا حکم ہے جو چیزوں کی حقیقت کو اصلیت بہتر جانتا ہے کیونکہ ہوسکتا ہے کہ کوئی دوسرا ڈاکٹر ان مذکورہ بیماریوں کا انکار کردے یا کل کوئی دوسرا ماہر اس کی کوئی اور حکمت دریافت کرلیتا ہے لیکن  ہم اس کی حکمت یا وجہ معلوم کرنے کے محتاج نہیں ہیں۔ا س لئے بہتر یہی ہے کہ غیر مسلموں کوبھی اسلام کی روشن تعلیمات اور قرآن کی اصل دعوت کا ہی قائل کیا جائے اس کے  بعد حلال و حرام کے سارے قرآنی اصول ان کی سمجھ میں آجائیں گے۔ ان شاء اللہ

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ صراط مستقیم

ص499

محدث فتویٰ

تبصرے