سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(224) موجودہ فلموں کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

  • 14074
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1883

سوال

(224) موجودہ فلموں کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کرائیڈن سے محمد حنیف صاحب لکھتے دریافت کرتےہوئے لکھتے ہیں:

آپ نے ’’ صراط مستقیم ‘‘ میں گانے بجانے اور موسیقی وغیرہ کو اسلام میں غلط اور ناجائز ثابت کیا ہے تو اس کا مطلب ہے یہ فلمیں وغیرہ سب ناجائز ہیں اور اسلامی ملک جو فلم بناتے ہیں اور دکھاتے ہیں کیا یہ بھی منع ہیں ا ور پھر جو ان فلموں میں رقص و ڈانس  ہوتا ہے وہ بھی ناجائز ہوگا ۔ ذرااس مسئلے پر مزید روشنی قرآن و حدیث کے لحاظ سے ڈال کر شکریہ کا موقع دیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مسلمانوں کے ہاں  یہ مرض اب عام ہے کہ جب کوئی ناجائز گناہ معصیت بدعت اور حرام کام لوگوں کی اکثریت کرنا شروع کردے اور  پھر سرکاری سرپرستی بھی انہیں حاصل ہوجائے تو اسے ہم مشرف بہ اسلام کرلیتے ہیں اور بغیر کسی تردد کے ایسے گناہ کے کاروبار شروع ہوجاتےہیں۔ یہ فلمیں گانے بجانے اور رقص و سرود کی محفلیں بھی اس ضمن میں آتی  ہیں۔ حالانکہ قرآن وسنت میں ان کاموں کی ممانعت یا حرمت کا حکم بالکل واضح ہے۔

مندرجہ ذیل آیات واحادیث کو سامنے رکھ کر فیصلہ خود کرلیں۔

’’ا ٓپ حکم دیں مومن مردوں کو کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔ یہ طریقہ بہت پاکیزہ ہے۔ اللہ ان کاموں سے خوب واقف ہے جو وہ کرتے ہیں۔‘‘ (سورہ النور)

اب آپ خود اندازہ کرلیں کہ موجودہ دورکی مقبول عام فلموں میں کیا یہ ممکن ہے کہ نظریں نیچی رکھی جائیں؟ بلکہ ان فلموں کے مکالمے ‘گیت ‘ناچ ‘چٹکلے اور اشارے سارے کے سارے بے ہودہ قسم کے ہوتے ہیں اور انہیں نرم سے نرم الفاظ میں بے حیائی کی حرکات ہی کہاجاسکتا ہے۔

سورہ نور میں مومن عورتوں کو بھی اسی طرح کا حکم دیا گیا ہے جیسا کہ مردوں کے بارے میں ابھی ہم نے ذکر کیا ہے(النور:۳۰)

اخلاق و شائستگی کا جو معیار قرآن حکیم نے ایک مومن مرد اور عورت کے لئے تجویز فرمایا اس پر پابندی کا سختی سے حکم بھی دیا اور دونوں آیتوں میں لفظ ’’ قل ‘‘ آیا ہے جو امر کا صیغہ ہے کہ اے رسولﷺ آپ مومنوں کو ایسے کرنے کا حکم دیں۔

اب فلموں میں نامحرم مردوں اور  عورتوں کے ذریعے اختلاط ‘عشقیہ گانے گانا اور پھر رقص و ناچ کے ذریعے جسم کے مختلف حصوں کو نمایاں کرنا‘ ان چیزوں کو کون شخص قرآنی تعلیمات کے مطابق قرار دے سکتا ہے؟

سورہ نور کی آیت مذکورہ میں یہ الفاظ بھی آتے ہیں کہ عورتیں اپنی آرائش کو ظاہر نہ کریں مگر جو خود بخود ظاہر ہے اور اپنی اوڑھنیوں کو اپنے گریبانوں پر ڈالے رہیں اور اپنی آرائش کو اپنے خاوند وں  کے سوا کسی پر ظاہر نہ  ہونے دیں۔

اب غیر اخلاقی اور فحش حرکات ‘عریانی ‘بریانی ‘برہنگی  اور رقص چاہے یہ فلموں میں ہویا بازاروں میں اورمختلف محفلوں میں ‘ اس کا ایک ہی حکم ہے اور آج تک کوئی ایسا مفسر پیدا نہیں ہوا جس نے ان کاموں کو جائز یا قرآنی تعلیمات کے مطابق قرار دیا ہو۔

قرآن کا یہ حکم بھی بالکل صحیح ہے:

’’ اور نہ ماریں اپنے پاؤں زمین پر تا کہ وہ بناؤ  اور سنگھار ظاہرہوجائے جسے وہ چھپائے ہوئے ہیں۔‘‘ (النور:۳۱)

اب مروجہ فلموں میں فتنہ انگیز اور شر انگیز نگاہوں سے بچنا یا بچانا ممکن ہی نہیں اور اب ان کے حکم کا فیصلہ آپ قرآنی آیت کی روشنی میں خود کرلیں۔

اس سلسلے میں چند احادیث نبوی بھی ملاحظہ فرمالیں۔

(۱)نبی اکرمﷺ نے فرمایا اللہ فرماتےہیں:

’’نظر شیطان کے تیروں میں سے ایک زہریلا تیر ہے۔ جو اس کو میرے خوف سے ترک کرتا ہے میں اسے ایمان کی نعمت سے بدل دوں گا جس کی مٹھاس وہ اپنے دل میں پائے گا۔‘‘

(۲)’’حضرت جریر بن عبداللہ فرماتےہیں کہ میں نے حضورﷺ سے عرض کیا کہ اگر اچانک کسی اجنبی عورت پر نظر پڑجائے تو اس کا کیا حکم ہے تو آپﷺ نے فرمایا کہ اس کے بعد نگاہ پھیر لو۔‘‘

(۳)’’حضرت ابوہریرہ ؓ نے ایک عورت کوآتے ہوئے دیکھا کہ اس سے خوشبو کی لپیٹیں اٹھ رہی ہیں۔ ا ٓپ نے اس سے پوچھا کہ کیا تو مسجد سے آرہی ہے؟ اس نے کہا جی ہاں۔۔ آ پ نے پوچھا کیا تونے خوشبو لگارکھی ہے؟ اس نے کہا جی ہاں تو انہوں نے کہا میں نے اپنے محبوب ابوالقاسمﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ  اللہ تعالیٰ اس عورت کی نماز قبول نہیں فرماتا جو مسجد میں تیز خوشبو لگا کر جائے جب تک وہ گھر لوٹ کر غسل جنابت کی طرح غسل نہ کرے۔‘‘

(۴)’’وہ عورتیں  جو رزق برق اور بھڑکیلے لباس پہن کر بازاروں میں پھرتی رہتی ہیں اور اجنبی مردوں کے ساتھ بغیر کسی قیدو حد کے ملتی جلتی رہتی ہیں ان کے بارے میں رسول اکرم ﷺ کا ارشاد ہے میمونہ  بنت سعد کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا  کہ وہ عورت جو آراستہ و پیراستہ ہو کر نامحرم مردوں میں اترا اترا کر چلتی ہے قیامت کے دن وہ مجسم تاریکی ہوگی جہاں نور کی کرن تک نہ ہوگی۔‘‘

ان کے علاوہ متعدد آیات و احادیث ایسی ہیں جن کی روشنی میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ موجود  ہ فلمیں جن کی مقبولیت  کا راز ہی بداخلاقی  و عریانی ہوتا ہے اور ایسی  فلمیں اخلاق اور کردار کے لئے زہر قاتل ہیں اور نئی نسل کو بگاڑنے میں خطرناک کردار انجام دے رہی ہیں‘ ان کے جواز کی ذرہ بھر گنجائش نہیں۔ اور شریعت اسلامیہ میں اس سے  کم درجے کے فحش مناظر ‘بے ہودہ حرکات اور شہوانی جذبات کو ابھارنے والے رقص و ناچ بھی ممنوع ہیں۔ نہ اس کی قرآن اجازت دیتا ہے اور نہ رسول  اللہ ﷺ نے اس کی اجازت دی ہے۔

رہی یہ بات کہ اسلامی ملک یہ کام کرتے ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ان ملکوں میں اسلام پر عمل کہاں ہوتا ہے۔ یہ مسلم ممالک تو ہیں اسلامی نہیں۔ اسلامی ملک وہی ہیں جہان شریعت اسلامی کے احکامی ہر عمل  ہوتا ہے اور اسلامی حدود اور اسلامی قوانین کا عملی نفاذہے۔ جہاں مسلمان اللہ کی حدود توڑیں اور شریعت کے اصولوں کو پس پشت ڈالیں‘وہاں کے حکمران بھی مجرم ہیں اور عوام بھی اللہ کے سامنے جواب دہ ہیں۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ صراط مستقیم

ص482

محدث فتویٰ

تبصرے