سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(220) گانے بجانے اور آلات موسیقی کا شرعی حکم

  • 14070
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 2799

سوال

(220) گانے بجانے اور آلات موسیقی کا شرعی حکم

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

گانے بجانے کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ کچھ لوگ اسے جائز بھی کہتے ہیں ۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت کریں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس میں کوئی شک نہیں کہ جب کسی بات پر جھگڑایا اختلاف ہوجائے تو صحیح فیصلہ اللہ تعالیٰ کی کتاب اور رسول اللہ ﷺ کی حدیث کے ذریعے ہی ہوسکتا ہے۔ جیسا کہ ارشاد ربانی ہے۔

﴿فَإِن تَنـٰزَعتُم فى شَىءٍ فَرُ‌دّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّ‌سولِ إِن كُنتُم تُؤمِنونَ بِاللَّهِ وَاليَومِ الءاخِرِ‌...﴿٥٩﴾... سورة النساء

’’اگر تم اللہ تعالیٰ اور آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو جھگڑے کی شکل میں فیصلے کے لئے اللہ اور رسول ﷺ کی طرف لوٹ جایا کرو۔‘‘

گانے بجانے کے بارے میں بھی ہمیں صحیح فیصلہ اللہ تعالی کی کتاب اور رسول کی سنت سے ملے گا۔ قرآن کی یہ آیت اس سلسلے میں فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہے۔ فرمایا:

﴿وَمِنَ النّاسِ مَن يَشتَر‌ى لَهوَ الحَديثِ لِيُضِلَّ عَن سَبيلِ اللَّهِ بِغَيرِ‌ عِلمٍ وَيَتَّخِذَها هُزُوًا أُولـٰئِكَ لَهُم عَذابٌ مُهينٌ ﴿٦﴾... سورة لقمان

’’اور کچھ لوگ کھیل تماشے کی باتیں خریدتےہیں (اپنا مال اور وقت دے کر ) تا کہ جہالت کے بل بوتے پر لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی راہ سے غافل کردیا جائے اور پھر اسے وہ مذاق سمجھتے ہیں۔‘‘

یعنی ہر وہ بات جو دل کو غافل کرے وقت ضائع کرے اور کوئی خیر کا پہلو اس میں نہ ہو اسے لھو کہاجاسکتا ہے جب کہ اللہ کا یہ حکم ہے کہ انسان اس زمین کو خیر’ عدل اور اصلاح کے کاموں سے آباد کرے۔

حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے اس روایت  کے  مفہوم کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے سوا اور کوئی معبود نہیں ہے اس سے مراد غناء (گانا) ہے تین مرتبہ یہ کلمہ دہرایا ۔ ابن ابھی شیبہ کی روایت کے مطابق حضرت ابن عباس ؓ ’حضرت جابرؓ’ حضرت عکرمہؓ’ حضرت سعید بن جبیرؓ’ حضرت مجاہد ؓ’ اور حضرت مکحول ؓ سب نے اس آیت کی وہی تفسیر کی ہے جو ابن مسعود ؓ نے کی۔ حضرت حسن بصری  کا قول ہے کہ یہ آیت گانے اور آلات موسیقی کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔

امام ابن کثیرؒ فرماتے ہیں کہ اس آیت میں ان بدبخت لوگوں کا حال بیان کیا گیا ہے جو اللہ تعالیٰ کا کلام سن کر تو کوئی نفع حاصل نہیں کرپاتے لیکن گانے بجانے اور آلات موسیقی پر فریفتہ رہتےہیں۔

۲۔بخاری شریف کی یہ حدیث بھی اس آیت کی تائید کرتی ہے جس میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

’’لیکونن فی امتی  اقوام یستحلون الحر والحریر والخمور والمعازف۔‘‘ (مشکوٰة للالباني ج ۳ کتاب الرقاق باب البکاء و الخوف ص ۱۴۶۸ رقم الحدیث ۵۳۴۳)

’’میری امت میں ایسی گروہ پیدا ہوجائیں گے جو زنا‘ ریشم‘ شراب اور گانے بجانے کے آلات کو حلال کرلیں گے یعنی بے دریغ ان کاموں کے ارتکاب کریں گے۔‘‘

۳۔ابن عساکر نے حضرت انس ؓ سے یہ روایت بھی نقل کی ہے:

’’ان رسول الله ﷺ قال من قعد الی قینة یستمع منها صب فی اذنه الانک یوم القیامة‘‘ (الجامع الصغیر ج ۲ ص ۱۶۳)

’’رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو کسی گانے والی کی پاس اسے سننے کے لئے بیٹھا تو قیامت کے دن پگھلا ہوا لوہا اس کے کانوں میں دالا جائے گا۔‘‘

۴۔بیہقی اور طبرانی نے ایک روایت نقل کی ہے کہ عمر بن قرۃ نامی ایک شخص رسول اکرمﷺ کے پاس آیا اور کہا گانا بجانا میرا ذریعہ معاش ہے مجھے اس کے اجازت دی جائے اور میں کوئی فحش گانا نہیں گاؤں گا تو رسول اللہﷺ نے اسے ڈانٹا اور فرمایا میں اس کام کی اجازت نہ دوں گا جس میں نہ عزت ہے نہ وقار۔ اللہ کے دشمن تو جھوٹ بول رہا ہے۔ اللہ نے تجھے حلال اور پاکیزہ رزق دیا ہے اور تو اپنے لئے وہ ذریعہ معاش اختیا ر کرتا ہے جسے اللہ نے حرام قرارد یا ہے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ صراط مستقیم

ص474

محدث فتویٰ

تبصرے