السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
برمنگھم سے ابو الفاروق قریشی لکھتے ہیں:
برطانیہ جیسے ماحول میں اکثر خواتین کو بعض ضروریات کے لئےباہر نکلنا پڑتا ہے۔ آپ دین اسلام کی روشنی میں اس سوال کا جواب ارشاد فرمائیں کہ کیا یہ بہتر نہیں کہ پرائیویٹ بسوں ٹیکسی وغیرہ سے سفر کرنے کی بجائے خواتین لیڈی ڈرائیور انسٹریکٹرز
سے ڈرائیونگ سیکھ کر اپنی ذاتی کاروں میں ضروری سفر کریں تاکہ مختلف خدشات و اوہام سے محفوظ رہیں۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اسلام میں ایسا کوئی حکم نہیں جو عورتوں کو باہر نکلنے اور ضروری کام کرنے سے منع کرتا ہو۔ ازدواج مطہرات اور صحابیات نے بھی ضروری کاموں کے لئے سفر کئے ہیں اور گھر سے باہر بھی نکلی ہیں۔ لیکن ان بنیادی اسلامی اصولوں کی پابندی ضروری ہوگی جن کی وضاحت قرآن و سنت میں موجود ہے جن میں سے چند درج ذیل ہیں
۱۔عورت کی اصل ذمہ داری گھر کے نظام کی نگرانی اور اولاد کی تربیت ہے اس کے کسی بھی کام سے اس کی اس ذمہ داری پر اثر نہیں پڑنا چاہئے۔
۲۔ڈرائیونگ یا کسی بھی دوسرے کام میں اس امر کا امکان نہیں ہونا چاہئے کہ مردوں سے اختلاط ہوگا یا کسی مرد سے خلوت ہوگی۔
۳۔اپنے جسم کی نمائش سے قطعی پرہیز کرے گی۔
۴۔گھر سے باہر کے کام اس مجبوری کی وجہ سے کررہی ہے کہ اس کا خاوند ان کاموں کے کرنے سے عاجز ہے یا موجود نہیں ہے۔ یا بعض معاشرتی ضرورتوں کے پیش نظر اسے باہر نکلنے پر مجبورہونا پڑا ہے۔
یہ اور اس طرح کے دوسرے قواعد کی پابندی کرتےہوئے ڈرائیونگ سیکھنے یا کار چلانے میں بظاہر کوئی شرعی ممانعت نہیں ہے۔خواتین بسوں میں زیادہ محفوظ ہیں یا اپنی کاروں میں سفر کرتے ہوئے تو اس اک انحصار حالات پر ہے۔ بعض اوقات اکیلی عورت کار چلاتے ہوئے بھی کئی قسم کے خطرات کی زد میں ہوتی ہے اور اسے زیادہ حفاظت کی ضرورت ہوتی ہے اور بسا اوقات بسوں میں دوسری عورتوں کے ساتھ زیادہ مامون ہوتی ہے۔
یار رہے کہ ہم نے یہاں جو بحث کی ہے وہ شہر اور محلے کے اندر ضروریات زندگی کے سلسلے میں عورت کےباہر نکلنے یا ڈرائیونگ کرنے سے متعلق ہے لیکن شہر سے باہر یا ملک سے باہر اکیلی عورت کا سفر کرنے کا حکم اس سے مختلف ہے اور اس سفر کے بارے میں شرائط بھی مختلف ہیں۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب