السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
برمنگھم سے محمد افضل دریافت کرتےہیں کیا عورتوں سے مصافحہ کرنا جائز ہے او ر اس میں مسلم و غیر مسلم کا کوئی فرق ہے؟ اگر کوئی بزرگ عمر رسیدہ ہو تو وہ مصافحہ کرسکتا ہے۔ نیز بعض مسلم ملکوں میں دیکھا گیا ہے کہ لوگ اپنی رشتہ دار عورتوں کو بوسہ بھی دیتےہیں ۔ اس بارے میں شرعی حکم کیا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
غیر محرم عورتوں سے مصافحہ جائز نہیں اور قرآن و سنت کے احکام سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ حرام کاموں میں سے ہے اور بعض اوقات یہ فعل فحاشی اور گناہ کے ارتکاب کا سبب بنتا ہے۔ قرآن میں جب عورتوں کو غیر محرموں کے سامنے زینت اور بناؤسنگھار کے اظہار سےمنع کیا گیا ہے۔۔۔۔۔کیونکہ یہ بھی اسباب فتن میں سے ہے۔۔۔۔تو مصافحہ کے ذریعہ اس طرح کے امکانات اور زیادہ ہیں اور پھر حدیث میں نبی کریمﷺ نے واضح طور پر فرمایا:
’’اني لا اصافح النساء۔‘‘ (سنن نسائي مترجم ج ۳ کتاب البیعت باب بیعة النساء ص ۱۵۴ رقم الحدیث ۴۱۸۷)
’’میں عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتا۔‘‘
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں:
"مامست بد رسول الله ﷺ ید امراةقط حین البیعة انما کان یبایعهن بالکلام۔" (فتح الباري ج ۹ کتاب التفسیر باب اذاجاء کم المؤمنات مهاجرات ص ۶۲۷ رقم الحدیث ۴۸۹۱وص ۴۶ رقم الحدیث ۲۷۱۳)
’’یعنی رسول اللہﷺ کے ہاتھ نے کبھی کسی عورت کے ہاتھ کو نہیں چھوا تھا بلکہ آپ عورتوں سے بیعت بھی زبانی طور پر لیتے تھے۔‘‘
اور اس سلسلے میں مسلم وغیر مسلم میں کوئی فرق نہیں بلکہ غیر مسلم خواتین کو اسلام کے احکام بتانے چاہئیں تا کہ اگر کسی مجبوری کی وجہ سےایک آدھ بار ہاتھ ملا بھی لیاتو آئندہ اس کام سےاحتیاط کرے۔جہاں تک کسی بزرگ یاعمر رسیدہ آدمی سے کسی عورت کے مصافحہ کرنےکا تعلق ہے تو جب رسول اکرمﷺ نے یہ کام ناپسند فرمایا ہے تو کسی اور بزرگ کا کیا اعتبار کیا جاسکتا ہے۔ موجودہ دور میں بعض لوگ جو بیعت کے نام پر عورتوں کےہاتھ اپنے ہاتھ میں لیتےہیں یا ان سے علیحدگی اور خلوت میں ملاقاتیں کرتےہیں یہ سب ناجائز ہیں۔ اسی طرح غیر محرم عورتوں کا بوسہ بھی حرام ہے بلکہ اس میں مصافحہ سے بھی زیادہ فتنہ انگیزی کا خطرہ پایا جاتا ہے۔ اس لئے مصافحہ ہو یا بوسہ‘ غیر محرم عورتیں چاہے کہ رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں‘ ہرگز جائز نہیں اور اس کے حرام ہونے پر مسلم علماء کا اجماع اور اتفاق ہے۔
د٭دد
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب