سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(195) داڑھی کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

  • 14045
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 5217

سوال

(195) داڑھی کی شرعی حیثیت کیا ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کارڈف سےغلام حسین دریافت کرتے ہیں

(الف)داڑھی کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ ہمارے ہاں مقامی مسجدمیں ایک پوسٹر میں لکھا ہے کہ داڑھی واجب ہے اور حدیث میں ایک باشت حد ہے اس سےکم نہیں منڈوانا یا کتروانا جائز نہیں ۔ جو ایسا کرتے ہیں وہ توبہ و تجدید نکاح کریں ۔ کیا واقعی ایسی صورت میں تجدید نکاح کی ضرورت ہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

(الف)داڑھی کی شرعی حیثیت کےبارے میں قرآن و حدیث کی روشنی میں ہم مفصل جائزہ پیش کرتےہیں اور اس سلسلے میں درج ذیل امور پر روشنی ڈالیں گے ۔

اول: داڑھی رکھنا واجب ہے یا سنت

دوم: داڑھی منڈوانا حرام ہے یا مکروہ

سوم: داڑھی کتروانا جائز ہے یا نہیں اور یہ کہ داڑھی کتنی لمبی ہونی چاہئے۔

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ داڑھی مردانگی کی علامت اور مردوں کی زینت ہے اور ہر مذہب میں اس کی حیثیت مسلمہ ہے۔ قدیم  زمانےمیں بادشاہوں اور حکمرانوں اور علماء اور فلاسفر وں کے لئے داڑھی امتیازی نشان سمجھا جاتاتھا۔ داڑھی منڈوانے کا رواج ایران کے آتش پرست حکمرانوں سے ہوا اور پھر اس کے اثرات پھیلتے گئے ۔ یورپ اور مغرب میں مدتوں داڑھی عزت و وقار کی علامت سمجھی جاتی رہی ہے ۔ طبی نقطہ نظر سے بھی داڑھی منڈانے کو نقصان دہ قرار دیا گیا ہے۔ تمام آسمانی مذاہب میں داڑھی کو بنیادی اہمیت حاصل رہی اور قرآن کریم سےمعلوم ہوتا ہے کہ پہلے انبیاء بھی داڑھی رکھتے تھے۔

چنانچہ سورہ طہ میں حضرت موسیٰ ؑ کے بارےمیں آتا ہے کہ انہوں نے غصے سے جب اپنے بھائی حضرت ہارون کے بال  پکڑے تو انہوں نے کہا۔

﴿أَلّا تَتَّبِعَنِ أَفَعَصَيتَ أَمر‌ى ﴿٩٣﴾... سورة طه

’’اے میری ماں کی بیٹے میری داڑھی اور سر کے بال نہ پکڑو۔‘‘

ایک روایت میں آتا ہے کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کا ذکر ان الفاظ کے ساتھ کرتےہیں :

’’سبحان الذی من زین الرجال باللحی والنساء بالقرون والذوائب‘‘

’’پاک ہے وہ ذات جس نےمردوں کو داڑھی سے زینت دی اور عورتوں کو گیسوؤں اور زلفوں سے زینت عطافرمائی۔‘‘

اسی طرح رسول اکرم ﷺ نے جن چیزوں کے بارےمیں فرمایا کہ یہ فطرت میں سے ہیں ان میں داڑھی بڑھانا بھی شامل ہے۔ فطرت کی ان چیزوں میں ختنہ ’زیرناف بالوں کی صفائی ‘ناخن تراشنا ‘داڑھی بڑھانااور مونچھیں تراشنا شامل ہیں۔

خود سرور عالم ﷺ کے بارے میں آتا ہےکہ

’’کان کثیر شعراللحیة‘‘

’’آپ کی داڑھی مبارک بہت گھنی تھی۔‘‘

(۱)داڑھی کے واجب یا سنت ہونے کے بارےمیں تھوڑا سا اختلاف پایا جاتا ہے لیکن اس عمر میں کوئی اختلاف نہیں کہ یہ ان سنتوںمیں سے ہے جن کے ترک  کے بارےمیں سخت وعید آئی ہے۔جن علماء نے داڑھی رکھنےکو واجب کہا ہے ’ان کے نزدیک بنیاد یہ حدیث ہے جس میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

’’احفواالشوارب واعفو االلحی۔‘‘(مختصر مسلم کتاب الحیض باب احفوا الشوارب واعفواالحی ص ۱۱۴ رقم الحدیث  ۱۸۴)(بخاري و مسلم)

’’مونچھیں تراشو او ر داڑھیاں بڑھاؤ۔ ‘‘

اور عربی میں لحیہ (داڑھی ) کا لفظ ٹھوڑی اور دونوں رخساروں کے بالوں پر بولاجاتا ہے۔

بخاری شریف کی ایک اور حدیث میں ہےکہ آپﷺ نے فرمایا مشرکین کی مخالفت کرو اور مونچھیں تراشو او رداڑھی بڑھاؤ۔

وجوب پر دوسری حدیث یہ پیش کی جاتی ہے جو مسلم شریف میں حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے مروی ہے کہ

’’امرنا باحفاء اشوارب واعفاء اللحیة۔‘‘ (سنن ابي داؤد مترجم ج۳ کتاب الترجل باب فی اخذ الشارب ص ۳۱۳  رقم الحدیث ۷۹۷)

’’کہ حضورﷺ نے ہمیں مونچھیں کاٹنے اور داڑھی چھوڑنے کاحکم دیا۔‘‘

تیسری یہ روایت بیان کی جاتی ہے کہ کسریٰ کےجومقاصد رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے تھے ’انہوں نے داڑھیاں چٹ کرائی  ہوئی تھیں اور لمبی لمبی مونچھیں رکھی ہوئی  تھی۔ انہیں دیکھ کر آپ ﷺ نے فرمایا:

’’ویلکما من امر کما بهذا ؟ قالا امرنا ربنا۔‘‘(تاریخ ابن جریر ۹۱/۳۔۹۰)

’’کہ تمہیں یہ شکل بنانے کا کس نے حکم دیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا ہمارے رب (یعنی بادشاہ کسریٰ) نے یہ حکم دیا۔‘‘

تو اس موقع پر آپﷺ نے فرمایا:

’’ولکن ربی امرنی باحفاء لحیتی وقص شاربی۔‘‘ (تاریخ ابن جریر ۹۱/۳۔۹۰)

’’لیکن میرے رب نے تو مجھے داڑھی بڑھانے اور مونچھیں کٹوانے کا حکم دیا ہے۔‘‘

بہرحال اگر واجب نہ بھی ہو تو داڑھی وہ سنت موکدہ ہے جس کا چھوڑنا کسی شکل میں جائز نہیں۔

داڑھی منڈوانا حرام ہے؟

جہاں تک داڑھی منڈوانے کا تعلق ہے تو اس کے حرام ہونے پر تمامائمہ اور علماء کا اتفاق ہے بعض نے اسے مکروہ کہا ہے لیکن اس کے اقوال دلیل کےلحاظ سےکمزور ہیں۔ درج ذیل دلائل داڑھی منڈوانے کی حرمت پر شاہد ہیں

(۱)قرآن حکیم میں سورہ نساء کی یہ آیات جن میں شیطان کے بارےمیں ذکر ہے اور شیطان نے کہاتھا‘‘ میں تیرے بندوں  میں سے کچھ کو اپنے پیچھے لگاؤں گا ’ان کو گمراہ کروں گا  اور ان کو ہوس دلاؤں گا اورمیں ان کو تعلیم دوں گا کہ وہ جانوروں کےکان چیریں گے اور میں ان کوکہوں گا کہ وہ اللہ کی بنائی ہوئی صورتوں کوبگاڑیں گے۔’’ اب اس میں فلیغیرن خلق اللہ سے بعض علماء نے یہ استدلال کیا  اس میں داڑھی منڈانا بھی شامل ہے۔

امام غزالی نےبھی ظاہری صورت کو مرد و عورت کے درمیان امتیاز قرار دیا ہے۔ فرماتے ہیں : ’’ داڑھی مردوں کی پوری خلقت میں داخل ہے اور اس سے ظاہری صورت میں عورتوں اور مردوں کے درمیان امتیاز ہے‘‘

اور خلقت (شکل) میں تبدیلی کو شیطانی فعل قرار دیا گیا ہے۔

(۲)آنحضرت ﷺ نے فرمایا

’’احفو االشوارب واعفو االلحی ولا تشبهو ا بالیهود۔‘‘ (الطحاوی فی شرح معانی الاثار ۲ ص ۳۳۳)

’’مونچھیں کٹاؤ’داڑھیاں بڑھاؤ اور یہودیوں کےساتھ مشابہت اختیار کرو۔‘‘

ایک روایت میں عیسائیوں اورمجوسیوں کا ذکر ہے کہ داڑھی رکھ کر ان کی مخالفت کرو۔

ان احادیث اور اقوال سے کم ازکم اس قدر تو ضرور ثابت ہوتاہے کہ جولوگ محض فیشن اور غیروں کی نقالی میں داڑھی منڈواتے ہیں وہ حرام فعل کا ارتکاب کرتے ہیں اور اس کی حرمت میں کوئی شبہ نہیں کیونکہ رسول اکرم ﷺ نے ظاہری چیزوں میں بھی اسلام کے دشمنوں کی بھی مخالفت کرنے کا حکم دیا ہے۔

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ فرماتےہیں کہ ظاہری چیزوں میں غیروں کی مشابہت کا اثر باطنی چیزوں پر بھی پڑتا ہے اور اپنا اور اپنے دین کا تشخص ختم ہوجاتا ہے اور اس پر متعدد تجربات شاہد ہیں اور پھر قرآن و سنت اور اجماع امت سے یہ ثابت ہےکہ کفار کی ایسے ظاہری امور میں مخالفت ضروری ہے جو ان سے باطنی قربت کا ذریعہ بنتے ہیں یا ان سے ذریعہ بننےکا اندیشہ پیدا ہو۔

اسی طرح جو لوگ نبی کریمﷺ کی اس سنت مبارکہ کو حقیر سمجھ کر اسے ترک کرتےہیں اس کے حرام ہونےمیں بھی کوئی شبہ نہیں۔ داڑھی تو ایک اہم سنت ہے ایک عام سنت کو بھی حقیر سمجھنا یا اس سے مذاق کرنا نا صرف حرام ہے بلکہ یہ بعض اوقات کفر تک پہنچا دیتا ہے۔

علماء نے وضاحت کے ساتھ لکھا ہے: الا سنھائة والا ستھزاء علی الشریعة کفر(شرح عقائد)

’’کہ شریعت کے کسی کام کو حقیر سمجھنا یا ااس سےمذاق کرنا کفر ہے۔‘‘

ملاعلی قاریؒ ترک سنت کے بارےمیں ایک حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں ’’ جو شخص حقارت یا لاپرواہی سے رسول اللہﷺ کی سنت چھوڑتا ہے وہ کافر و ملعون ہے اور جو سستی و کاہلی سے ترک کردیتا ہے‘وہ عاصی و نافرمان ہے۔‘‘

علامہ ابن ھمام ؒ فتح القدیر میں فرماتےہیں کہ جو شریعت کے کسی کام کو  کفریہ الفاظ سے مذاق کرے تو وہ کفر کی طرح ہے۔

ہمارے ہاں یہ بیماری موجود ہے کہ لوگ سنت نبویﷺ داڑھی کے طرح طرح کےنام لےکر مذاق کرتےہیں  اور اسے حقیر اس حد تک سمجھا جاتاہے کہ بعض جاہل عورتیں اپنے خاوندوں کو داڑھی منڈوانے پر مجبور کردیتی ہیں اور بعض بے دین گھرانے شادی میں داڑھی منڈوانے کی شرطیں لگاتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کو رسول اللہ ﷺ کے یہ ارشادات سامنے رکھ کر اپنے انجام کی خیر منانی چاہئے کہ رسول اللہ ﷺ کی شکل وصورت کو نہ صر ف قبول نہ کیا بلکہ اسے تمسخر و مذاق بھی بنایا ۔ ان کا ٹھکانا آخر کہاں ہوگا  یہ معمولی بات نہیں ۔ کبرت کلمۃ تخرج من افواھم یہ بہت بڑی بات ہے جو ان کےمنہ سے نکلتی ہے ’اس لئے اس انداز سے اس سنت کو ترک کرنے کے حرام ہونےمیں کوئی شبہ نہیں۔

داڑھی کی حد

داڑھی کےمنڈوانے کےناجائز ہونے پر تو کوئی اختلاف نہیں ہاں البتہ داڑھی  کی حد پر اختلاف ہے یہ کتنی لمبی ہونی چاہئے۔

داڑھی کٹوانے  کے جواز میں ترمذی شریف کی یہ حدیث پیش کی جاتی ہے

’’ان النبی  ﷺ یا خذ من لحته من عرضحا و طولها۔‘‘ (ترمذي مترجم ج ۲ ابواب الاستئذان و الادب باب ماجاء فی الاخذ من الحیة ص ۲۴۹)

’’کہ نبی ﷺ اپنی ریش مبارک کے عرض سے بھی او ر طول سے بھی کچھ ترشوادیتے تھے۔‘‘اس حدیث کی صحت میں کلام ہونے کے باوجود ائمہ دین کی تصریحات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ داڑھی ایک مشت سے کم رکھنے کوجائز نہیں سمجھتے تھے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے بارے میں آتا ہے کہ وہ ایک بالشت سے زیادہ بال ترشوادیتے تھے۔

جب کہ داڑھی بڑھانے والی احادیث کے راوی بھی خود حضرت عبداللہ بن عمرؓ ہیں۔

تمام روایات او اقوال و افعال کا تجزیہکرتے ہوئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ شریعت کا اصؒ مدعا تو یہ ہے کہ داڑھی رکھی جائے’ہرگز منڈائی نہ جائے اور افضل و بہتر یہی ہے کہ مکمل داڑھی ہو اور زیا دہ کم نہ کرئی جائے۔ ہاں اگر داڑھی کا بے ڈھنگا پن دور کرنے اور اس کوفت سے بچنے کیلئے کچھ بال طول وعرض سے کم کرلئے جائیں تو اس میں بظاہر کوئی شرعی دلیل مائع نہیں۔

اس طرح ایک مشت سےکم کرانے سے پرہیز کی جائے لیکن ایک مشت سے کم پر لفظ داڑھی کا اطلاق ہوگا اور اس داڑھی کو بھی ہم ناجائز نہیں کہہ سکتے اور یہ داڑھی بھی منڈوانے سے تو  بہتر ہے۔ خاص کر جب کوئیشخص سنت نبوی سمجھ کر رکھے تو اس پر اعتراض نہیں کرنا چاہئے لیکن اسے داڑھی بڑھانے کی تلقین کرنی چاہئے۔ ہاں اگر کوئی تھوڑی سی داڑھی محض فیشن کے طور پر رکھتا ہے تو اس سے ہمیں کوئی غرض نہیں۔

آپ نے جو لکھا ہےکہ لوگ کہتے ہیں کہ داڑھی منڈوانے سے نکاح ٹوٹ جاتاہے توپھر دوبارہ نکاح کی ضرورت پیش آئےگی تو اس کی کوئی دلیل قرآو حدیث سے ثابت نہیں۔ داڑھی منڈوانے کو سنگین گناہ قرار دینے کے باوجود رسول اللہ ﷺصحابہ کرامؓ اور ائمہ دین سے یہچیز ثابت نہیں کہ اس گناہ کے ارتکاب سے نکاح ٹوٹ جاتا ہے اور داڑحی رکھنے کے بعد اسے اپنے نکاح کی تجدید کرنا ہوگی ایسے لوگوں کو اپنے قول کے ثبوت میں کوئی دلیل پیش کرنے چاہئے۔

جہاں تک توبہ کا تعلق ہے تو یہ بالکل درست ہے۔ جس طرح دوسرے گناہوں سے توبہ ضروری ہے اسی طرح اس گناہ سے توبہ کرنابھی ضروری ہے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ صراط مستقیم

ص422

محدث فتویٰ

تبصرے