السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
لندن سے مسز شمیم لودھی لکھتی ہیں ’’ خاوند کے فوت ہونے پر بیوی کو عدت کے دن پورے کرنے ہوتے ہیں اور کافی شرائط بھی ہیں کہ وہ یہ نہیں کرسکتی ‘ وہ نہیں کرسکتی‘ باہر نہیں جاسکتی۔ اگر عورت کے اوپر سب گھربار کا بوجھ پڑھ جائے اور مجبوراً اسے باہر نکلنا بھی پڑتا ہے جیسے اس ملک میں ایک دو ہفتے کے بعد عورت کام پر جانے لگتی ہے۔ اگر نہ جائے تو سارے گھر کا نظام رک جاتا ہے۔ توایسی حالت میں عورت کے لئے کیا حکم ہے؟ذرا روشنی ڈالئے‘بہت سی بہنوں کا سوال ہے۔
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اگر کسی عورت کا شوہر فوت ہوجائے تو ایسی عورت کے لئے چار مہینے دس دن ہے ۔ اس مدت کےمتعین کرنے کے مختلف اسباب یا حکمتیں ہوسکتی ہیں۔ بہرحال غرض یہی ہے کہ عورت کو اتنا وقت دیا جائے کہ وہ خاوند کی موت کا صدمہ بھی برداشت کرلے اور استبرائے رحم بھی ہوجائے۔ شریعت اسلامی میں عورت کے لئے بہتر اور مناسب تو یہی ہے کہ وہ اس دوران گھر کے اندر ہی رہے اور ہر قسم کی زیب و زینت سے مکمل پرہیز کرے۔ قرآن حکیم کی سورہ بقرہ آیت نمبر ۲۳۶ میں عدت کا ذکر ہوا ہے۔
خاوند کی وفات کے علاوہ طلاق کی شکل میں عدت کے دوران بھی عورت کےلئے باہر نکلنا ممنوع قرار دی گیا ہے۔ چنانچہ سورہ طلاق کی آیت نمبر ۱ میں مردوں کو اس بات سے روکا گیا کہ وہ عورتوں کو طلاق کے بعد عدت کے دوران ہی گھر سے نکال دیں اور عورتوں کو بھی اس بات سےمنع کیاگیا کہ وہ خود گھروں نکل جائیں۔اسلام سے پہلے جاہلیت کےزمانے میں مطلقہ عورتوں خصوصاً جن کے خاوند فوت ہوجاتے تھے انہیں سخت ذہنی اذیت سے دوچار ہوناپڑتا تھا انہیں تمام معاشرے سے الگ تھلگ کرکے ایک غلیظ و تاریک کمرے میں رہنے پر مجبور کیا جاتاتھا ا ور گندے کپڑے پہننے کی پابندیا ں لگائی جاتی تھی اور پھر اس کے بعد جاہلیت کی بعض فضول قسم کی رسمیں ادا کرنے کے بعد اس گھر یا کمرے سے باہر آتی تھیں۔ اسلام نے جہاں ان تمام پابندیوں کو ختم کیا اور اسے عزت و وقار کے ساتھ اسی گھر میں رہنے کا حق دیا ۔ وہاں خوشبو اور زیب و زینت کی دوسری اشیاء استعمال کرنے سےمنع کیا۔
جہاں تک کام یا دوسری کسی ضرورت کے تحت باہر نکلنے کا تعلق ہے تو قرآن کی تعلیمات اور احادیث میں جو تفصیل آئی ہے اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ عام حالات میں تو اس کی اجازت نہیں اور خیروبرکت اسی میں ہے کہ اسلامی احکام پر عمل کرکے عورت چار ماہ دس دن گھرمیں گزارے لیکن شدید ضرورت کے تحت عورت کو گھر سے باہر جانے کی اجازت بھی دی گئی ہے۔
حدیث میں آتا ہے کہ حضرت ام سلمہؓ کے پاس ایک عورت آئی جس کا خاوند فوت ہوچکا تھا اور وہ عدت گزار رہی تھی۔ اس نے پوچھا کہ میرا والد بیمار ہے کیا میں اس کے یہاں جاسکتی ہوں ؟ ام سلمہ نے دن کے وسطہ میں جانے کی اجازت دے دی۔
ایک اور روایت میں ہے: ’’شہدائے احد کی بیویوں نے رسول اللہﷺ سے یہ شکایت کی کہ گھر میں وہ تنہائی محسوس کرتی ہیں تو کیا ہم کبھی ایک دوسری کے پاس رات گزار سکتی ہیں؟ تو آپﷺ نے انہیں ایک دوسری کے گھر میں جانے کی اجازت دی اورفرمایا کہ سونے کےوقت اپنے گھروں میں آجایا کرو۔‘‘ (نیل الاوطار)
اس طرح کی متعدد روایا ت اور صحابہ کرام ؓ کے اقوال سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسی عورتیں ضرورت کے مطابق اپنے گھروں سے باہر نکل سکتی ہیں۔
اس لئے آپ نے کام کرنے کے بارےمیں جو دریافت کیا ہے یہ بھی ایک ضرورت اور مجبوری ہے جس کی وجہ سے عدت گزارنے والی عورت کو کچھ دیر کےلئے باہر نکلنا پڑتا ہے ۔ لہٰذا جس عورت کا اور کوئی ذریعہ معاش نہیں کوئی کمانے والا بھی نہیں چھٹی بھی نہیں مل سکتی اور کوئی متبادل بھی نہیں تو ایسی صورت میں وہ کام پر جاسکتی ہےلیکن عام سادہ اور باوقار لباس میں جانا چاہئے اور زیب و زینت اور آرائش سےمکمل پرہیز کرنا ہوگا۔
حضرت جابرؓ سےایک حدیث مروی ہے ’’ میری خالہ کو تین طلاقیں ہوچکی تھیں (وہ حالت عدت میں تھی) تو وہ کھجور کاٹنے کےلئے باہر گئی۔ اسے ایک آدمی نے منع کیا تو وہ نبی کریم ﷺ کے پاس آئی اور یہ بات ذکر کی توآپ ﷺ نے فرمایا تو باہر جاکر کھجوریں کاٹ سکتی ہے۔ ہوسکتا ہے تو اس طرح اللہ کی راہ میں صدقہ کرے یا کوئی خیرو بھلائی کرے۔‘‘ (مسلم شریف)
اب اس حدیث سے بھی ہم یہ استدلال کرسکتے ہیں کہ ضرورت اور کام کےلئے عورت باہر جاسکتی ہےکیونکہ عام حالت میں تو مطلقہ عورت کو بھی عدت کےدوران باہر نکلنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب