سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(164) چوری چھپے کام اور حج

  • 14014
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1578

سوال

(164) چوری چھپے کام اور حج

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ریڈنگ سے کرم الہٰی چوہان لکھتے ہیں

۱۔قرآن و حدیث کےعلاوہ حج کی کتاب پڑھی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ جدہ پہنچ کر آگے ہر مقام پر حاجی کےلئے دعا کرنا ضروری ہے اس طرح تو اتنی لمبی دعا یاد کرنا ممکن نہیں۔ کیا ایسی حالت میں جب یہ دعائیں نہ کی جا سکیں تو حج مکمل ہوجاتا ہے؟

۲۔اس بےکاری کےدور میں گزارہ الاؤنس ملتا ہے بعض حضرات مزید ضرورت کے لئے پارٹ ٹائم کسی جگہ کام بھی کر لیتے ہیں’اس طرح چوری چھپے کام کرکے جو پیسے جمع کرتے ہیں کیاا ن کے ذریعے حج ہوجاتا ہے؟

۳۔اگر کسی مسجد میں دین کی تعلیم ہورہی ہو تو اس میں شامل ہوتا بہتر ہے یا تلاوت کرنا افضل ہے؟

۴۔مسجد میں اگر سونے کی جگہ الگ نہ ہو تو کیا نماز کی جگہ سو سکتے ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سفر حج میں جدہ پہنچ کر آگے  مکہ مکرمہ تک کوئی خاص دعا نبی کریمﷺ سے ثابت نہیں ہے اور یہ بالکل غلط ہے کہ ہر مقام پر حاجی کےلئے دعا ضروری ہے۔ بیت اللہ تک  حج یا عمرہ کرنے والے کےلئے جو کلمات پڑھنے ثابت ہیں وہ صرف تلبیہ ہے یعنی لبیک اللھم (فتح الباری ج ۴ کتاب الحج ’باب التلبیۃ رقم الحدیث ۱۵۴۹) کے الفاظ آخر تک ۔یہ جس قدر کثرت کے ساتھ پڑھے بہتر ہے۔ ان کےعلاوہ دوسرے کلمات یا دعائیں ثابت نہیں ہیں لہٰذا اس طرح کی غیر ثابت دعاؤں کا حج سے کوئی تعلق نہیں۔

اسی طرح طواف کےہر چکر کےلئے جو بعض کتابوں میں الگ الگ دعائیں وہ بھی ثابت نہیں ہیں۔ صرف رکن یمانی اور حجر اسود کےدرمیان ﴿رَ‌بَّنا ءاتِنا فِى الدُّنيا حَسَنَةً وَفِى الءاخِرَ‌ةِ حَسَنَةً وَقِنا عَذابَ النّارِ‌ ﴿٢٠١﴾... سورةالبقرة" پڑھنا ثابت ہے۔ اس کے علاوہ دوران طواف کوئی بھی دعا کرسکتا ہے۔ اگر عربی میں نہ کرسکے تو اپنی زبان میں کر سکتا ہے یاکوئی دوسرے مسنون کلمات پڑھ سکتا ہے۔

(۲)حج کےلئے حلال کمائی کا ہونا ضروری ہے۔ ایسے ہی جس کمائی میں جھوٹ دھوکے یا فریب کا دخل ہو وہ مشکوک ہے’ اس سے پرہیز کرنا چاہئے گزارہ الاؤنس کے ساتھ جو دوسرا کام کیا جاتاہے اگر وہ محنت مزدوری کی شکل میں اجرت لیتا ہے تو فی نفسہ وہ کمائی حلال ہے۔ اس کمائی میں کوئی برائی  نہیں کیونکہ آدمی کام کرتا ہے اور اس کی بدلے میں حق اجرت لیتا ہے لیکن اس کے ساتھ اس نے اتھارٹی کو جویہ کہا کہ وہ کوئی کام نہیں کرتا۔ اس میں جھوٹ ہے اور جھوٹ  سنگین جرم ہے جس کا اس کو اللہ کے ہاں جواب دینا ہے۔ یہ اس کا الگ عمل ہے لیکن کمائی یا محنت اپنی جگہ درست ہے اس لئے حج کی ادا ئیگی میں اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

(۳)اگر کسی مجلس میں دین کی تعلیم ہورہی ہو اور اس میں بیٹھنے سے دینی معلومات میں اضافہ ہوتا تو تلاوت سے بہتر ہے کہ اس مجلس سے فائدہ  اٹھایا جائے۔ نبی کریم ﷺ ایک دفعہ مسجد نبویﷺ میں تشریف لائےتو آپ نے دو طرح کے لوگوں کو دیکھا ۔ کچھ لوگ ایک طرف بیٹھ کر اللہ کا ذکر کررہے ہیں اور کچھ لوگ ایک مجلس میں علم سیکھنے سکھانے کی باتیں کررہے ہیں۔ آپ خود اس مجلس میں تشریف لےگئے جس میں علم کی باتیں ہورہی تھیں۔ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ تبلیغٰ و علمی مجلس کو چھوڑ کر اگر کوئی شخص الگ بیٹھ کر تلاوت کرتا ہے تو یہ بھی جائز ہے کیوں کہ آپ نے ذکر کرنے والوں کو منع نہیں کیا تھا۔

(۴)مسجد میں اگر الگ جگہ سونے کے لئے نہیں ہے تو نماز کی جگہ بھی سوسکتے  ہیں۔ صحابہ کرام رسول اللہ ﷺ کی مسجد میں سوتے تھے۔ یہ حدیث سے ثابت ہے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ صراط مستقیم

ص360

محدث فتویٰ

تبصرے