سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(154) کیا بھائی بہن کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں؟

  • 14004
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 3529

سوال

(154) کیا بھائی بہن کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ناٹنگھم سے محمد علی صاحب لکھتے ہیں کیا رشتہ داروں کو بھی صدقہ اور زکوٰۃ دی جاسکتی ہے۔ جیسے بہن بھائی بھتیجے وغیرہ قرآن و سنت کی روشنی میں مسئلہ کی پوری وضاحت کرکے مسلمانوں کو فائدہ پہنچائیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صدقات و زکوٰۃ کےجن مصارف کا قرآن میں ذکرکیا گیا ہے اگر رشتہ دار بھی اس ضمن میں آتے ہیں تو انہیں زکوٰۃ د ی جاسکتی ہے۔ یعنی اگر وہ بھی غریب مسکین اور مستحق ہیں بلکہ قرآن نے واضح طور پر یہ بیان کیا ہے کہ رشتہ داروں اور قرابت داروں میں جو مستحق ہیں ان کا زیادہ حق ہے اور پہلے ان کی مدد کرنی چاہئے اس کے بعد دوسرے لوگوں کا حق بنتا ہے۔ اس موضوع پر درج ذیل آیات میں تصریح کی گئی ہے:

اہل ایمان کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا:’’ اور جو مال کی محبت کے باوجود اسے اپنے رشتہ داروں یتیموں اور مسکینوں اور مسافروں اور سوال کرنے والوں اور گردن آزاد کرنے میں خرچ کرتے ہیں۔‘‘(البقرہ: ۳۶)

یہاں بھی رشتہ داروں  کو مقدم رکھا ہے۔

(۲)’’اور عبادت کر و اللہ کی اس کے ساتھ ہرگز شرک نہ کرو‘والیدین کے ساتھ احسان کرو او ررشتہ داروں یتیموں اور مساکین اور قریبی ہمسائے اور دور کے ہمسائے اور قریبی ساتھی اور مسافر سے نیکی کرو۔‘‘ (النساء:۳۶)

(۳)’’اور رشتہ داروں کو ان کا حق دو اور مساکین کو اور مسافر کو اور فضول خرچی نہ کرو۔‘‘ (بنی اسرائیل:۲۶)

(۴)’’اور مدد کرو قرابت داروں کی اور مسکینوں کی اور مسافروں کی۔‘‘ (روم:۳۸)

(۵)’’کہہ دو کہ جو مال تم نیکی کی راہ میں خرچ کرو پس وہ والدین کےلیے’ قرابت داروں  کےلئے اور یتیموں کے لئے مساکین کےلئے اور مسافر کےلئے ہے۔‘‘ (البقرہ:۲۱۵)

ان تمام آیات سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ رشتہ داروں میں جو بھی مستحق ہوگا اس پر مال خرچ کرنا نہ صرف جائز بلکہ ضروری ہے۔

سوائے ایسے رشتوں کےجن کی کفالت صاحب مال کے ذمہ ہے۔

حدیث سے تو یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ جو آدمی رشتہ داروں پر مال خرچ کرتا ہے‘ اسے اللہ تعالیٰ دوہرا ثواب عطاکرتاہے۔ حضرت سلیمان بن عامر روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

"الصدقة علی المسکین صدقة و هی علی ذی الرحم ثنتان صدقه وصلة۔"(ترمذي مترجم ج ۱ ابواب الذکاء باب ماجاء فی الصدقة علی ذی اقرابة ص ۲۵۴)

’’کہ مسکین پر صدقہ کا ثواب  صدقہ ہی کا ہوگا جب کہ رشتہ دار پر خرچ کا دو پہلو سے ثواب ہے صدقے کا بھی اور صلہ رحمی کا بھی۔‘‘

اس لئے عزیزواقارب میں جو مستحقین ہیں ان کو ترجیح دینا کتاب و سنت کی تعلیمات کےعین مطابق ہے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ صراط مستقیم

ص343

محدث فتویٰ

تبصرے