السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
دارقطنی ۔ مسنداحمد میں حدیث ہے:
(1) «عن رفاعة بن رافع ان رسول الله قال للمسی صلوٰته انها لاتتم صلوٰة احدکم حتیٰ یسبغ الوضوء کما امرالله یغسل وجهه و یدیه الی المرفقین و یمسح برأسه ورجلیه الی الکعبین» (دارقطنی)
(2) «عن عثمان انه دعا بماء فتوضأ ومضمض و استنشق ثم غسل وجهه ثلاثا و یدیه ثلاثا و مسح براسه و ظهر قدمیه ثم ضحک» (مسنداحمد جلداوّل)
(3) «عن عبد خیر قال رأیت علیادعا بماء لیتوضاء فتمسح به تمسحا و مسح علیٰ ظهر قدمیه ثم قال هٰذا وضوء من لم یحدث» (مسنداحمد جلد اوّل ص59)
ان احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور حضرت عثمان ؓ و حضرت علی کرم اللہ وجہہ وضو میں پاؤں دھونے کی بجائے ان پر مسح ہی فرماتے تھے۔؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
رفاعہؓ کی حدیث کے الفاظ مثل قرآن کے ہیں او رقرآن کےالفاظ میں وارجلکم کا عطف وجوهکم پر ہے او رحدیث رفاعہ میں کما امرالله بھی اسی طرف اشارہ ہے۔
نمبر2 کی حدیث میں جو عثمانؓ کی ہے وہ مسنداحمد سے ساری نقل نہیں کی اس کے اخیر میں طھر قدمیہ حرف طامہملہ کے ساتھ ہے۔ جس کے معنی ’’پاؤں کو پاک کیا‘‘ کے ہیں۔ پس اس سے بھی پاؤں کا مسح ثابت نہ ہوا۔ اس کے علاوہ مسند احمد کے اسی صفحہ 59 میں دوسری روایت میں پاؤں کے دھونے کی تصریح ہے۔ چنانچہ اس کے الفاظ یہ ہیں۔« ثم غسل قدمه الیمنیٰ ثلاثا ثم الیسریٰ کذالک۔»
نمبر3 کی حدیث میں جو حضرت علی ؓ سے مروی ہے وہ مسند احمد جلد اوّل صفحہ59 میں نہیں ہے بلکہ 116 میں ہے۔ اس میں سارا وضوء مسح ہے۔ صرف پاؤں کامسح ہی نہیں اور مسح سے سمراد ہلکا ہلکا وضوء ہے کیونکہ منہ او رہاتھ کا مسح تو کس کے نزدیک جائز نہیں۔ اس کے علاوہ جب انسان باوضوء ہو تو مسح حقیقی مراد ہونے میں بھی مخالف کی دلیل نہیں بنتی کیونکہ مخالف تو بے وضو ہونے کی حالت میں بھی مسح کا قائل ہے۔ حالانکہ اس حدیث میں تصریح ہے۔ هذا وضوء من لم یحدث۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب