السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
لندن سےمحمد ارشد صاحب لکھتے ہیں کہ میرے ایک دوست کہتے ہیں کہ وہابیوں کی نشانی یہ ہے کہ وہ ‘‘ ض’’ کو ظا پڑھتے ہیں اور سنی وہ جو ضاد کو دال سے پڑھتے ہیں۔ اس بارےمیں وضاحت کریں کہ یہ اختلاف اورفرق کیوں ہے اور کیا واقعی اس بنیاد فرقہ بندی ہوئی ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
’’ض‘‘ کے تلفظ میں فرق کےسلسلے میں تفصیل سے پہلے اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ جہلا میں وہابی سنی کے نام پر جو امتیازات اور فرق قائم کئے جاتے ہیں ان کی علمی اور شرعی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ یہ تو پیشہ ور ملاؤں نے اپنی روٹی پکی کرنے کے بہانے بنا رکھے ہیں۔ بعض فقہی مسائل میں جو تھوڑا بہت اختلاف ہے اس کی بنیاد پر ہرگز کسی فرقے کی بنیاد نہیں رکھی جاسکتی ۔ بے چارے عوام کو کبھی کہاجاتا ہے جو اونچی آواز آمین کہے وہ وہابی ہے کبھی کہاجاتا ہے جو درود نہی پڑھے وہ وہابی ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ وہابی کے نام پر دنیا میں نہ کوئی فرقہ ہے اور نہ ہی کسی دینی جماعت کا وجود ہے یہ محض انگریز کا پروپیگنڈہ ہے جسے آج کے اہل بدعت اپنے مخصوص مفادا ت کےلئے استعمال کررہے ہیں ۔ اسی طرح سنی کا لفظ بھی کسی ایک گروہ کی اجارہ داری نہیں’ جس طرح پاکستا ن و ہندوستان میں سمجھا جاتا ہے حالانکہ اہل سنت و سنی کا لفظ اہل تشیع و شیعہ کےمقابلے میں امتیاز کےلئے ہےاور اس کےمطابق شیعہ حضرات کے علاوہ مسلمانوں کے باقی تمام مکاتب فکر کو ’’سنی‘‘ کہاجاسکتا ہے۔
’’ ض ‘‘ کامسئلہ بھی اس نوعیت کا ہے۔ یہ نہ وہابیت کی پہچان ہے نہ سنیت کی اور نہ شیعت کی ۔ یہ خالص علمی مسئلہ ہے جو فن قرأت و تجوید سے تعلق رکھتا ہے۔ بعض جاہل یہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ جو ’’ ضاد‘‘ کو ظا کی طرح پڑھے اس کی نماز صحیح نہ ہوگی۔ اس طرح کی ساری باتیں غلط ہیں۔
اس بارے میں سید نذیر حسین محدث دہلوی نے فتاوی نذیریہ میں بڑی عمدہ اور مفید بحث کی ہے جسے ہم ذیل میں پیش کرتے ہیں :۔
’’ ض‘‘ کےبارے میں تین دعوے یا آراء ہیں جنہیں تفصیل سے پیش کیاجاتا ہے ۔
(۱)ایک دعویٰ یہ ہے کہ چونکہ ضاد کا مخرج سے ادا کرنا سخت دشوار ہے۔
(۲)اور دوسرا دعویٰ یہ ہے کہ ضاد کو ظا سے بہت کم مشابہت اور فرق کم ہے۔
(۳)اور تیسرا دعویٰ یہ ہےکہ چونکہ ضاد کامخرج سے ادا کرنا سخت دشوار ہے اور ضاد کو ظا سے بہت مشابہت ہے اس لئے اگر کوئی شخس بجائے ضاد کےظا پڑھے تو نماز اس کی موافق مذہب مفتی نہ کے صحیح رہے گی۔
اب ہر ایک دعوے کی دلیل لکھی جاتی ہے تا کہ عمرو کے اس قول کی صحت معلوم ہو۔
پہلے دعوے کی دلیل یہ ہےکہ کتاب النشر فی قرأت العشر میں مرقوم ہے جیسا ضاد کا ادا کرنا زبان پر دشوار ہے ویسا کسی حرف کا ادا کرنا دشوار نہیں۔ اسی وجہ سے لوگوں کی زبانیں اس کے ادا کرنے میں مختلف ہیں اور کم لوگ ہیں جو اس کو اچھی طرح سے ادا کرسکیں ۔ علامہ جزری تمہید فی علم التجوید میں لکھتے ہیں۔ حروف میں حرف ضاد کی طرح کوئی اور حرف دشوار نہیں ہے۔ علامہ ابو محمد مکی کتاب الرعایہ میں لکھتے ہیں ۔ ضاد کے پڑھنے میں قاری کو لحاظ و محافظت کرنا ضروری ہے۔ کیونکہ یہ ایک ایسا امر ہے کہ میں نے اس میں بہت سے قراء اور ائمہ کو قصور کرتے ہوئے دیکھا۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ ضاد کا ادا کرنا دشوار ہے ان لوگوں پر جن کو اس کی مشاقی نہیں ہے۔
اور دوسرے دعوے کی دلیل یہ ہے کہ علامہ ابو محمد مکی ؒ اپنی کتاب الرعایہ میں لکھتےہیں۔ ضاد ایک ایسا حرف ہے جو سننے میں ظاء کےمشابہ ہے۔ علامہ شعلہ موصلی حنبلی شرح شاطبیہ موسوم بہ کنز المعانی شرح حرزالدمانی میں لکھتے ہیں ضاد اور ظاء اور ذال سننے میں باہم متشابہ ہیں اور ضاد اورظاء میں صرف دوبات کا فرق ہے۔ ایک تویہ کہ ان دونوں کےمخرج الگ الگ ہیں اور دوسرے یہ کہ ضاء میں استطالت ہے اور ظاء میں نہیں۔ اگر ان دونوں کا فرق نہ ہوتا تو یہ دونوں حرف ایک ہوجاتے علامہ محمد بن جزری تمہید فی علوم التجوید میں لکھتے ہیں لوگ ضاد کو ظاء بولتے ہیں اور یہ اکثر شام والے ہیں اور بعض اہل مشرق اور ان لوگوں کے ضاء کو ظاء پڑھنے کی وجہ یہ ہے کہ حرف ضاء حرف ظاء کی تمام صفتوں میں مشارک ہے اور اس میں استطالت کی صفت زائد ہے جو حرف ظاء میں نہیں ہے۔ سو اگر ضاد میں استطالت کی صفت نہ ہوتی اور اس کامخرج ظاء کے مخرج سے الگ نہ ہوتا تو ضاد عین ظاء ہوجاتا ۔ اور ابن جئی نے اپنی کتاب التنبیہ میں لکھا ہے کہ بعضے عرب عام طور پر اپنے تمام کلام میں ضاد کو ظاء بولتے ہیں اور یہ قریب ہے اور اس میں عوام کے لئے وسعت ہے۔ قصیدہ جزریہ میں ہے ض اور ظ میں صرف استطالت اور مخرج کا فرق ہے۔ ض اور ظ میں بجز استطالت و مخرج کے تمام صفات میں مشارک و مشابہ ہوناایک ایسی بات ہے کہ اس پر تمام علماء فن تجوید کا اتفاق ہے ۔ لہٰذا دوسرے دعوے کے ثبوت میں جس قدر عبارتیں نقل کی گئی ہیں کافی ووافی ہیں اور عبارتوں کی نقل کی کچھ ضرورت نہیں۔
اور تیسرے دعوے کی دلیل یہ ہے تاریخ ابن خلقان جلد دوم صفحہ ۲۹۹ میں علامہ ابن الاعرابی اللغعی کے ترجمہ میں مرقوم ہے کہ کلام عرب میں ضاد کی بجائے ظا کے اور ظاء کو بجائے ضاد کے پڑھنا جائز ہے۔ پس جو شخص ضاد کی جگہ ظا پڑھے یا ظا کی جگہ ضاد پڑے تو وہ خاطی نہیں کہاجائے گا علامہ ابن الاعرابی کا یہ قول نص صریح ہے اس بات پر کہ جوشخص قرآن مجید میں ضاد کی جگہ ظا پڑھے وہ خاطی نہیں ہے اور جب وہ خاطی نہیں ہے تو اس کی نماز بلاشبہ صحیح درست ہوگی۔ علامہ فخرا لدین رازی تفسیر کبیر میں لکھتے ہیں۔ دسواں مسئلہ ہمارے نزدیک مختار یہ ہے کہ ضاد کا ظا کےساتھ مشابہ ہونا نماز کو باطل نہیں کرتا اور اس پر دلیل یہ ہے کہ ان دونوں کے درمیان تمیز کرنا مشکل ہے۔ اس وجہ سے یہ بات واجب ہوئی کہ ان دونوں کے درمیان فرق کرنے کی تکلیف ساقط ہو اور ان دونوں میں مشابہت کا بیان کئی وجوہ سے ہے۔ اول تو یہ ہے کہ دونوں حرف حروف رخوہ سے ہیں اور تیسرے یہ کہ دونوں حرف حروف مطبقہ سے ہیں اور چوتھے یہ کہ اگرچہ ظا کا مخرج زبان سے اور ثنا یا علیا کی نوک ہے او رضاد کا مخرج زبان کےکنارہ سے ہے مع افراس کےجو کنارہ زبان سے متصل ہیں مگر چونکہ ضاد میں بوجہ اس کےرفوہ ہونے کے انبساط اور کشادگی حاصل ہے اس وجہ سے ضاد کا مخرج ظا کے مخرج سے قریب ہے اور پانچویں یہ کہ نطق بحرف ضاد عرب کے ساتھ مخصوص ہے۔ ہمارے اس بیان سے ثابت ہوا کہ ضاد اور ظاء کے درمیان نہایت مشابہت ہے اور دونوں میں تمیز کرنا مشکل ہے۔
جب یہ ثابت ہوچکی ہے تو ہم کہتے ہیں کہ اگر ان دونوں میں فرق کرناضروری ہوتا تو رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں اور صحابہ ؓ کےزمانے میں بالخصوص جب کہ عجمی لوگ داخل ہوئے اس کے بارے میں ضرور سوال واقع ہوتا۔ پس جب اس بارےمیں سوال واقع ہونا منقول نہیں ہے تو معلوم ہوا کہ ان دونوں حرفوں میں تمیز کرنے کی ہم لوگوں کو تکلیف نہیں دی گئی ہے۔ فتاوی قاضی خاں میں ہے کہ چونکہ حرف ضاد اور ظا میں فرق کرنا مشکل ہے اور بلا مشقت کےفرق نہیں ہوسکتا اس لئے ضاد کی جگہ ظا پڑھنے سے نماز فاسد نہیں ہوگی اور یہی مضمون فقہ حنفی کی بہت سی کتابوں میں مرقوم ہے۔
الحاصل۔ عمر و کا یہ قول کہ (اگر کوئی شخص بجائے ضاد کے پڑھے یا بایں جہت کے ادا کرنا ضاد کے مخرج سے دشوار ہے اور ضاد کو ظاء سےمشابہت مفتی نہ کے صحیح رہے گی) صحیح اور مدلل ہے اور جب اس کا یہ قول صحیح اور مدلل ہے تو اس کا فعل یعنی ضاد کو مانند صورت ظا کے پڑھنا بھی صحیح اور درست ہے اور یہیں سے ثابت ہوگیا کہ زید کا یہ قول کہ (اگر کوئی شخص بجائے ضاد کے ظا پڑھے گا تو اس کی نما زفاسد ہوجاوے گی)
بالکل غلط ہے اور یہ بھی ثابت ہوگیا کہ زید کا ضاد کو مانند صورت دال کے پڑھنا بالکل بے اصل و بے ثبوت ہے اور حسب تصریح قاضی خاں بجائے ضاد کے دال پڑھنے سے نماز فاسد ہوجاتی ہے اور عمرو کا ض کو مماثل دال کے پڑھنے سے منع کرنا اور کہنا کہ حرف دوا دبے اصل و بے ثبو ت ہے الخ’بہت بجا اور صحیح ہے فی الواقع حرف ضاد کا مماثل دال کےہونا نہ تجوید کی کسی کتاب سے ثابت ہے اور نہ صرف یا فقہ یا تفسیر کی کتاب سے۔ پس ضاد کا مماثل دال پڑھنا بلاشبہ بے دلیل و بے ثبوت ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب