السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مروجہ فاتحہ خوانی کی رسومات کے بارے میں ایک صاحب پوچھتے ہیں کیا یہ جائز ہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مسلم معاشرہ میں فاتحہ خوانی قرآن خوانی ’سوم اور چہلم وغیرہ کی رسومات اس قدر رواج پاچکی ہیں کہ اب یہ باقاعدہ تقریبات کی شکل اختیار کرچکی ہیں۔ اور جو ان کی موجودہ شکلیں ہمارے سامنے ہیں ‘ ان کے بدعت ہونے میں کوئی شبہ نہیں کیونکہ نبی کریمﷺ کےزمانے میں ان تقریبات کا اس طرز کا وجود تک نہ تھا‘ نہ صحابہ کرامؓ سے اور نہ ائمہ دین سے اس کا ثبوت ملتا ہے اور مندرجہ ذیل دلائل کی بنیاد پر ہم مذکورہ مروجہ رسومات یا تقریبات کو جائز نہیں سمجھتے۔
(الف) رسول اکرمﷺکے دور میں اموات ہوئیں۔ مرنے والوں کے عزیزواقارب اور ور ثاء کے لئے آپﷺ نے کوئی ایسا کام کرنے کا حکم نہیں دیا جو آج ہمارے ہاں قل سوم یا چہلم کی شکل میں ہیں۔ خود آپ کی صاحبزادیاں فوت ہوئیں لیکن آپ ﷺ نے کسی کے لئے اجتماعی فاتحہ خوانی ‘ قرآن خوانی یا چہلم وغیرہ نہیں کیا ۔ جس طرح ہمارے ہاں آج کل رواج ہے۔
(ب)حضور اکرمﷺ کے ایک جلیل القدر صحابی حضرت جریر بن عبداللہ ؓ فرماتے ہیں کہ:
کنانری الاجتماع الی اہل المیت و صنعهم الطعام من النسیاحة ۔(سنن ابن ماجه ج ۱ کتاب الجنائز باب ماجاء فی النهی عن الاجتماع الی اهل المیت و ضعة الطعام ص ۷۹۸ رقم الحدیث ۱۶۱۲۔)
’’ہم یعنی صحابہ رسول ﷺ اہل میت کے ہاں لوگوں کے جمع ہونے اور اہل میت کا ان کےلئے کھانا تیار کرنے کو نوحہ سمجھتے تھے۔‘‘
اور دوسری حدیث میں خود حضورﷺ نے نوحہ کو جاہلیت کی رسموں میں قرار دیا ہے۔
(ج) میت کے گھروالوں کو کھانا پکانا اور اپنے خاندان اور برادری والو ں یا مہمانوں کو کھلانا یوں بھی معیوب ہے۔ اس کے برعکس رسول اکرم ﷺ نے اہل میت کو کھانا کھلانے کی تاکید فرمائی۔ حدیث میں ہے کہ:
’’جب حضرت جعفر بن ابی طالب کی وفات کی خبر آپ کو پہنچی تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ جعفر کے گھروالوں کے لیے کھانا تیار کرو کیونہ وہ مصیبت و غم میں مبتلا ہیں۔‘‘
ہمارے ہاں مسئلہ ہی الٹ ہے۔ یہاں یتیم ہو یا غریب بیوہ عور ت ہو یا مقروض آدمی جب موت واقع ہوگئی تو مولوی صاحب سمیت کھانے والوں کی چالیسو یں تک ایک لمبی قطار لگ جاتی ہے اور قرآنی خوانی محض ایک بہانہ ہے اور ایصال ثواب محض برائے نام ہے اصل غرض کھانا کھلانا ہے۔
(د)آج کل ایسی تقریبات نام ونمود اور نمائش کا ذریعہ بن چکی ہے اور شادی کی طرح اس کی تشہیر کی جاتی ہے اور پھر پورے اہتمام کے ساتھ انواع و اقسام کے کھانے تیار کئے جاتے ہیں اور کھانے والے اپنے عزیزواقارب یا مذہبی لوگ ہوتےہیں۔ ان میں غریب و مسکین کا گذر تک بھی نہیں ہوتا اور جس عمل میں ریاء اور دکھلاوا آجائے وہ تو ویسے ہی اللہ کے ہاں مقبول نہیں ۔ گو ظاہر میں وہ کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو۔
(ر)قرآن وسنت میں میت کے تعلق سے فاتحہ خوانی ‘قل ‘قرآن خوانی‘سوم اور چہلم کے الفاظ یا اصطلاحات کا ذکر تک نہیں۔ اگر ان کی کچھ اہمیت ہوتی تو یہ الفاظ یا تقریبات قرآن و حدیث میں منقول ہوتے یا سلف صالحین سے ان کا ثبوت ہوتا اور اوپر ذکر کی گئی قباحتوں سے پاک بھی ہوں تب بھی ان اعمال کےلئے خصوصی مجالس قائم کرنا‘ خصوصی دن مقرر کرنا اور پھر ان کی خاص شکل بنانا اور پھر کچھ آیا ت کا انتخاب کر کے اس موقع پر پڑھنا ان سب کا ثبوت درکار ہے۔ شارع علیہ السلام کے علاوہ کسی کو اختیار نہیں کہ وہ اپنی طرف سے کسی عبادت کی شکل بنائے یا دن اور کیفیت کا تعین کرے۔
اگر کوئی شخص ایصال ثواب کےلئے قرآن پڑھتا ہے نوافل یا دوسری عبادات ایصال ثواب کے لئے کرتا ہے تو اس کی مروجہ اشکال کی ضرورت نہیں۔ اس طرح صدقہ و خیرات اگر ایصا ل ثواب کے لئے کرتا ہے تو غرباء ومساکین کو ڈھونڈنا چاہئے۔ دنوں کا تعین کرکے اپنی طرف سے عبادات کی شکل بنانا ہر گز جائز نہیں ہے۔
بہر حال قرآن و سنت کی رو سے اسن مروجہ چیزوں کا کوئی ثبوت ہمارے پاس نہیں ہے۔
ہمارے ہاں اس رسومات کی پابندی کرنے والے اکثر دوست اپنے آپ کو حنفی بھی کہتے ہیں انہیں چاہئے کہ حضرت ابو حنفیہ اور دوسرے حنفی اماموں میں سے ان رسومات کا کوئی ثبوت فراہم کردیں بلکہ اس کےبرعکس بڑے حنفی ائمہ اور علماء نے اس طرح کی رسومات کو بدعت و ناجائز قرار دیا ہے۔
بعض لوگ کہتےہیں ہم بزرگوں کے اقوال پیش نہیں کرتے تو بہتر ہوگا کہ چند بزرگوں کے ارشادات بھی اس موضوع پر پیش کردیئے جائیں ۔ اگر ہمیں ایصال ثواب کا منکر ہونے کا طعنہ دیا جاتا ہے تو اپنے ان بزرگوں کے بارے میں کیا خیال ہے۔
(۱)ا مام قاضی خان حنفی لکھتے ہیں:۔
ویکره اتخاذ الضیافت فی ایام المصیبة لانها تاسف فلا یلیق بهاما کان للسرور۔ (فتاوی قاضی خاں)
یعنی مصیبت کے دنوں میں دعوت کرنا مکروہ ہے ۔ کیونکہ جو کام خوشی کے وقت ہو’وہ غمی کے وقت مناسب نہیں۔
(۲)امام حافظ ابن ہمام ؒلکھتے ہیں:۔
ویکره اتخاذ الضیافة لانه شرع فی السرور لافی السرود وهی بدعة مستقبحة۔ (فتح القدیر ج ۱ ص ۲۹۳)
یعنی میت کے گھر کھانا تیار کرنامکروہ ہے کیونکہ کھانا تو خوشی کےموقع پر تیار ہوتا ہے نہ کہ غمی میں اور یہ بڑی قبیح بدعت ہے۔
(۲)امام حافظ الدین محمد بن شہاب حنفی لکھتےہیں۔ جس کا ترجمہ یہ ہے:
’’تین دین تک ضیافت مکروہ ہے اور اس طرح اس کا کھانا بھی کیوں کہ ضیافت تو خوشی کےموقع پر ہوتی ہے اور پہلے دوسرے اور تیسرے دن طعام تیار کرنابھی مکروہ ہے اس طرح سات دنوں کے بعد (یعنی ساتواں ) اور عیدوں کےموقع پر اور اس طرح موسم بموسم قبروں کی طرف کھانا اور جانا بھی مکروہ ہے اور قرأت قرآن کےلئے اور علماء و قراء کو جمع کرکے ختم قرآن کےلئے دعوت کرنابھی مکروہ ہے اور علی ہذا القیاس سورہ انعام یا سورہ اخلاص کے قرأت کےلئے کھانا تیار کرنا بھی مکروہ ہے۔ حاصل یہ ہے کہ قرأت قرآن کے وقت کھانا تیار کرنا مکروہ ہے۔(بحواله فتاویٰ بزازیه جلد ۴)
(۳)حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی جو سب کے مشترک بزرگ ہیں فرماتے ہیں:
’’دیگر از عادات شنیعہ مامردم اسراف است درما تمہاد سیوم و چہلم و شش ماہی و فاتحہ سالینہ و ایں ہمہ رادر عرب اول وجود نبود مصلحت آن است کہ غیر تعزیت وارثان میت تاسہ روزو طعام ایشاں یک شبانہ روز رسمے نباشد۔‘‘
یعنی ماتم کےموقع پر یہ بری رسومات اور اسراف کےکام ہیں اور سوم چہلم شش ماہی اور فاتحہ وغیرہ کا اول عربوں میں وجود ہی نہیں تھا۔ تعزیت میت کے ورثاء کے لئے تین دن تک کےعلاوہ کسی کھانے کا کوئی وجود نہیں۔
(۴)ہمارے بریلوی بھائیوں کےنزدیک بھی مقبول شخصیت حضرت شیخ عبدالحق دہلویؒ فرماتےہیں :
’’عادت نبوی نبود کہ برائے میت در غیر وقت نماز جمع شوند قرآن خوانند و ختمات خوانند نہ برسر گورونہ غیر آن وایں مجموع بدعت است و مکروہ نعم تعزیت اہل میت و تسلیہ و صبر فرمودن سنت و مستحب است اما ایں اجتماع مخصوص روز سوم و ارتکاب تکلفات دیگر و صرف اموال نے وصیت از حق یتامی بدعت و حرام است‘‘ (سفر السعادت)
’’یعنی یہ نبی کریمﷺ کی عادت مبارکہ نہیں تھی کہ نماز کے وقت کے علاوہ خاص طور پر میت کے لئے جمع ہوں پھر قرآن پڑھیں اور کئی ختم بھی پڑھیں نہ قبر اور نہ کسی اور دوسری جگہ اور یہ سارے کام بدعت اور مکروہ ہیں۔ ہاں میت کے ورثاء کی تعزیت کرنا انہیں صبروتسلی کی تلقین کرنا’ یہ سنت و مستحب ہے۔ اس طرح تیسرے روز مخصوص اجتماع اور کئی تکلفات کرنااور یتیموں کے مال کو بغیر وصیت کے خرچ کرنا بھی بدعت اور حرام ہے۔‘‘
حضرت شیخ عبدالحق محد ث دہلوی ؒ نے تو بات بالکل صاف کردی ہے اور قرآن وسنت کا موقف بڑے واضح انداز میں بیان فرمادیا ہے۔ اب ہمارے بھائی ان پر جو چاہیں فتویٰ لگا دیں۔
شیخ صاحب نے تین باتوں کی شرعی حیثیت متعین فرمادی ہے:
اول: میت کے گھر فاتحہ خوانی و قرآن خوانی کے لئے اہتمام کے ساتھ جمع ہونا ثابت نہیں‘ ہاں جب مسجد میں نماز کےلئے جمع ہو تو اس وقت دعا کردینا الگ بات ہے اور یہ جائز ہے۔
دوم: سوم کی رسم بھی بے ثبوت اور بدعت ہے۔
سوم: پھر کھانے پینے میں اہتمام و تکلف کرنایہ بھی ناجائز ہے۔
چہارم: اور اگر سب کچھ یتیموں کے اموال سے کیاجارہا ہے تو یہ حرام ہے۔
اب جب ان رسومات کاثبوت ایسی شخصیات کے نزدیک بھی نہیں جن کا ہم سب احترام کرتےہیں’ اسکے بعد بھی ان رسومات کو اس جوش و خروش کے ساتھ کرنا جس جوش و جذبے سے فرائض بھی ادا نہیں کرتے تو یہ کھلی ضد اور ہٹ دھرمی ہے۔
رہی ایصال ثواب کی بات تو اس کے سب مسلمان قائل ہیں بشرطیکہ مذکورہ بدعات و رسومات سے مبرا ہو۔ ہم ایصال ثواب کے اس حدیث کی روشنی میں قائل ہیں جس میں آپﷺ نے فرمایا:
اذا مات ابن آدم انقطع عمله الا من ثلاث صد قة جاریة او علم ینتفع به او ولد صالح یدعوا له۔(صحیح مسلم للالبانی کتاب الجنائز باب ایصال الثواب رقم الحدیث ۱۰۰۱)
’’یعنی جب ابن آدم فوت ہوجاتا ہے تو اس کے اعمال کا سلسلہ بھی منقطع ہو جاتا ہے سوائے تین کے۔ صدقہ جاریہ یا ایسا علم سکھایا گیا جو اس کے بعد بھی نفع دے رہا ہے یا نیک اولاد جو اس کےلئے دعا کرتی ہے۔‘‘
دوسری حدیث حضرت ابوہریرہ ؓ روایت کرتےہیں کہ:
’’ایک آدمی نبی کریمﷺ کے پاس آیا اور کہا میرا باپ فوت ہوگیا ہے لیکن اس نے کوئی وصیت نہیں کی۔ اگر میں اس کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا اسے فائدہ دے گا؟ آپﷺ نے فرمایا ہاں کیوں نہیں۔‘‘ (مسند احمد‘مسلم شریف)
تیسری حدیث حضرت عائشہ صدیقہؓ کی ہے کہ :
’’ ایک آدمی نبی اکرمﷺ کے پاس آیا کہ میری ماں کی اچانک موت واقع ہوگئی۔ میرا خیال ہے اگر وہ بول سکتی تو صدقہ کرتی ۔ اگر میں اس کی طرف سے صدقہ کروں تو کیا اسے اجر ملے گا ؟ آپ نے فرمایا ہاں ملے گا۔‘‘ (بخاری و مسلم)
اب مروجہ ختم ‘سوم ‘چہلم اور درود کی شکلو ں کو سامنے رکھتے ہوئے خود ایمان داری سے فیصلہ کرلیں کہ یہ صدقہ جاریہ یا صدقے کی کوئی دوسری قسم ہے یا دونوں کا تعین کرکے دوست واحباب کی محض ایک دعوت یا پارٹی کا سماں ہوتا ہے ۔سب کو معلوم ہے کہ صدقہ جاریہ کسے کہتےہیں اور عام صدقات کرنے کا کیا طریقہ ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب