السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
(۱)کیا غائبانہ نماز جنازہ جائز ہے؟ قرآن وحدیث کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔ اگر جائز ہے تو چند ایک اکابرین کا ذکر بھی کریں کہ ان کے بعد کئی کئی دن تک مختلف جگہوں پر یا ملکوں میں ان کے معتقدین غائبانہ نماز جنازہ پڑھتے ہیں؟
(۲)کہتے ہیں کہ میت کا جنازہ ایک ہی دفعہ ہوسکتا ہے مگر ہم جو بھی میت بھیجتے ہیں اس کا یہاں بھی جنازہ پڑھتےہیں اور پاکستان میں بھی۔ اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
(۳)کیا مسجد کے اندر میت کو لےجاکر نماز جنازہ پڑھنا مکروہ ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
(۱)غائبانہ نماز جنازہ کا مسئلہ ان مسائل میں سے ہے جن میں فقہاء کے درمیان علمی اختلاف ہے۔ امام شافعی ؒ امام احمد بن حنبلؒ اور جمہور سلفؒ کے نزدیک غائبانہ نماز جنازہ پڑھنا جائز ہے جب کہ احناف اس کے قائل نہیں ہیں۔ احمد ابن حزمؒ کا قول ہےکہ کسی بھی صحابی سے غائبانہ نماز کی ممانعت ثابت نہیں ہے۔ جن کے نزدیک غائبانہ نماز جنازہ یا غائب کا جنازہ پڑھنا جائز ہے ان کی بڑی دلیل یہ حدیث ہے کہ عن جابر ان النبی ﷺ صلی علی اصحمة النجاشی فکبر علیة اربعا وفی لفظ قال توفی الیوم رجل صالح من الحیش فهلمو ا قصلوا علیه فصففنا خلفه فصلی رسول الله ﷺ و نحن صفوف۔ (فتح الباري ج ۳ کتاب الجنائز باب التکبیر علی جنازة اربعا ص ۵۶۱ رقم الحدیث ۱۳۳۳۔)
حضرت جابر روایت کرتےہیں: ’’رسول اللہ ﷺ نے اصحمہ نجاشی(شاہ حبش) پر چار تکبیروں کے ساتھ نماز پڑھی۔ اس طرح کے لفظ بھی آئے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا آج حبش کا ایک نیک آدمی فوت ہو گیا ہے پس آؤاس کی نماز جنازہ پڑھیں تو ہم نے آپ کے پیچھے صفیں باندھ لیں اور رسول اللہ ﷺ نے نماز پڑھائی۔‘‘ (بخاری ومسلم)
اس حدیث سے بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ کو نجاشی کی وفات کی جب اطلاع ملی تو آپﷺ نے اس کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی۔
جو لوگ نماز جنازہ غائبانہ کے قائل نہیں وہ کہتے ہیں کہ حضورﷺ نے نجاشی کی نماز جنازہ غائبانہ اس پڑھی تھی کہ اس کی نماز جنازہ وہاں پڑھی نہیں گئی تھی۔ بہرحال اس حدیث سے غائبانہ نماز کا ثبوت ملتا ہے اس کی وجہ یا علت کا کوئی ذکر نہیں آیا ۔ اس لئے ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ نماز صرف نجاشی کے لئے خاص تھی۔ بعد میں کسی غائب کے لئے نہیں پڑھی جاسکتی ۔ ہاں اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ سیاسی قسم کے غائبانہ جنازے کا کہیں ثبوت نہیں ملتا کہ محض لوگوں کو احتجاج کےلئے اکٹھا کرنے کے لئے جنازے کو ذریعہ بنا لینا اور جنازے کے فوراً بعد غلیظ الفاظ بکنا گالیاں دینا‘اسے سیاسی جنازہ ہی کہا جاسکتا ہے۔ شرعی جنازے کی یہ کیفیت نہیں ہوتی۔
رہی یہ بات کہ کیا اکابرین میں ایسے لوگ موجود ہیں جن کے کئی کئی روز تک مختلف ملکوں میں جنازے پڑھے جاتےرہے تو اس سلسلے میں یہاں تاریخ و سیرت کی کتب اور مراجع نہ ہونے کی وجہ سے میں سلف کی زیادہ مثالیں ذکر نہیں کرسکتا۔ایک مثال شیخ الاسلام حضرت امام ابن تیمیہؒ کی ذکر کئے دیتا ہوں ۔ ان کی نماز جنازہ غائبانہ کا ذکر تاریخ میں ان الفاظ میں آیا ہے:
’’صلی علیه اصلوة الغائب فی الغالب بلاد الاسلام القریبة والبعیدة حتی فی الیمن والصین واخبر المسافرون انه نودی باقصی الصین الصلوة علیه یوم جمعة الصلوة علی ترجمان القران۔‘‘
یعنی امام ابن تیمیہؒ نے جب وفات پائی تو اسلام کے اس عظیم سپوت کی اکثر اسلامی ملکوں میں غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی۔ جن میں یمن اور چین کا بھی ذکرآتا ہے اور سیاحوں نے بتایا کہ چین کے دوردراز علاقوں میں منادی کرنے والے نے ان الفاظ سے لوگوں کو نماز جنازہ کے لئے بلایا کہ ‘‘ترجمان القرآن کی نماز جنازہ کے دن پڑھی جائے گی۔‘‘
ماضی قریب میں مصر کے شیخ حسن البناء شہید ’قائد اعظم محمد علی جناح’ مولانا ابوالکلام آزاد اور شاہ فیصل کے غائبانہ جنازے مختلف ممالک اور مختلف شہروں میں ہر ملک و مذہب کے لوگوں نے پڑھے۔
لہٰذا حدیث نجاشی کو بنیاد بنا کر غائبانہ نماز جنازہ کے جو از کاثبوت ملتا ہے لیکن کسی ایک واقعہ سے جو مسئلہ ثابت ہو ضروری نہیں کہ اس کے لئے بعد میں متعدد مثالیں پائی جائیں کیونکہ جواز کےلئے ایک آدھ واقعہ بھی دلیل بن سکتا ہے لیکن ا سے مستقل عادت بنالینا یا غائبانہ جنازے کو ضروری سمجھنا ہرگز درست نہیں۔
جواب: (۲)ایک میت پر ایک سے زائد مرتبہ جنازہ پڑھنا بھی حدیث سے ثابت ہے۔ مشکوٰۃ شریف میں بحوالہ صحیح بخاری و مسلم یہ حدیث مذکور ہے۔
عن ابن عباس ان رسول اللهﷺ مر بقبر دفن لیلا فقال متی دفن هذاس قالوا البارحة قال افلا اذیتمونی قالوا دفناه فی ظلمة اللیل فکرهنا ان نوقظک فقام و صففنا خلفه فصلی علیه۔"(فتح الباري ج ۳ کتاب الجنائز ص ۴۵۴ رقم الحدیث ۱۲۴۷)
’’حضرت ابن عبا س سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک قبر کے پاس سے گزرے جس میں میت دفن کئی گئی تھی ۔ آپﷺ نے فرمایا یہ کب دفن ہوا؟ لوگوں نے عرض کی گزشتہ رات کو۔ آپﷺ نے فرمایا : تم نے مجھے کیوں خبر نہ دی؟ لوگوں نے کہا اندھیری رات میں ہم نے اسے دفن کیا اور اس وقت آپ کو جگانا مناسب نہ سمجھا۔ اس کے بعد رسول اللہﷺ اٹھے اور ہم نے آپ کے پیچھے صفیں باندھ لیں اور آپ نے نماز جنازہ پڑھی۔‘‘ (بخاری و مسلم)
اس حدیث سے یہ ثابت ہوا کہ میت کہ دفن کرنے کے بعد اس پر دوبارہ نماز جنازہ پڑھنا درست ہے۔ ظاہر ہے جب دفن کے بعد جائز ہے تو دفن کرنے سے قبل اس پر ایک سے زائد مرتبہ جنازہ پڑھنے میں کوئی امر مانع نہیں ہوسکتا اور اس بارے میں کوئی دلیل شرعی نہیں ہے کہ ایک میت کا صرف ایک ہی بار جنازہ پڑھا جا سکتا ہے۔ لہٰذا اگر میت یہاں سے پاکستا ن منتقل کی جاتی ہے اور وہاں اس کادوبارہ جنازہ پڑھا جاتا ہے تو یہ بالکل جائز ہے اس میں کوئی شرعی رکاوٹ نہیں ہے۔ حضرت علیؓ کے بارے میں بھی یہ روایت آتی ہے کہ ۔ صلی علی علی جناز بعد مصلی علیھما کہ حضرت علیؓ نے ایک جنازہ پڑھا حالانکہ اس پر پہلے نماز جنازہ پڑ ھی جا چکی تھی۔
جواب: (۳)مسجد کے اندر نماز جنازہ ادا کرنے میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے ۔ احناف کے نزدیک مسجد میں جنازہ پڑھانا مکروہ ہے جبکہ اما م شافعی ؒ اور امام احمد ؒ کے نزدیک جائز ہے۔ امام مالک سے بھی ایک روایت جواز کی ملتی ہے جن کے ہاں مسجد میں نماز جنازہ جائز ہے ان کی دلیل یہ روایت ہے۔
’’عن عائشه انها قالت لما توفی سعد بن ابی وقاص ادخلوا به المسجد حتی صلوا علیه فانکروا ذالک علیها فقالت لقد صلی رسول الله ﷺ ابنی بیضا فی المسجد سھیل و اخیه‘‘ (مسلم مترجم ج ۱ کتاب الجنائز ۴۰۰)
’’جب حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ فوت ہوئے تو حضرت عائشہ ؓ نے کہا کہ میت مسجد میں لے آؤ تا کہ اس پر جنازہ پڑھوں۔ کچھ لوگوں نے اس کو اچھا نہ سمجھا تو حضرت عائشہؓ نے فرمایا بیضاء کے دونوں بیٹوں سہیل اور سہل کی نماز جنازہ مسجد میں پڑھی گئی تھی۔ حافظ ابن حجر نے فتح الباری میں ابن ابی شیبہ کی یہ روایت ذکر کی ہے کہ حضرت عمر ؓ نے حضرت ابوبکر ؓ کی نماز جنازہ مسجد میں پڑھائی اور حضرت صہیبؓ نے حضرت عمرؓ کا جنازہ مسجد میں پڑھایا۔‘‘
احناف نے عدم جواز پر اس حدیث سے استدلال کیا ہے جو امام محمد موطا میں لائے ہیں لا یصلی علی جنازة فی المسجد (موطا امام محمد ص ۱۶۹ باب الصلاة علی الجنازه فی المسجد).
کہ مسجد میں جنازہ نہیں پڑھا جائے گا جبکہ دوسرے محدثین نے اس روایت کو ضعیف کہا ہے۔ بعض کے نزدیک اگر میت مسجد سے باہر ہو تو جنازہ مسجد میں پڑھا جا سکتا ہے۔ بہر حال جمہور ائمہ کا مسلک یہی معلوم ہوتا ہے کہ مسجد میں نماز جنازہ پڑھانا جائز ہے۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب