سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(109) دوبارہ نماز جنازہ کا حکم کیا ہے؟

  • 13891
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 3047

سوال

(109) دوبارہ نماز جنازہ کا حکم کیا ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

برمنگھم سے محمد امین لکھتے ہیں:

میرا تعلق پاکستان کے جس علاقے سے ہے اس کی آبادی کا ایک خاصا حصہ یہاں برطانیہ میں فی الحال مقیم ہے۔ اکثریت بمع اہل وعیال رہائش پذیر ہیں۔ لیکن کسی کی موت واقع ہوجانے کی صورت میں اس کی میت دفنانے کےلئے پاکستان بھجواتے ہیں۔ بے پناہ ہوائی سفر کے اخراجات کی وجہ سے میت کے ہمراہ خاندان کا ایک آدھ فرد ہی جاسکتا ہے۔ لہٰذا یہاں مسئلہ میت کی نماز جنازہ کا پیدا ہوتا ہے۔ چونکہ مسلک کے لحاظ سے ہم حنفی ہیں۔ اس لئے بعض علماء کہتے ہیں حنفی مسلک میں میت کا جنازہ صرف ایک ہی دفعہ کیا جاسکتا ہے جس کی طرف اشارہ بہشتی زیور حصہ اول میں ان لفظوں میں کیا گیا ہے’’ایک جنازے کی نماز کئی دفعہ پڑھنا جائز نہیں مگر ولی میت کو جب کہ اس کی بغیر اجازت کسی غیر مستحق نے نماز پڑھا دی ہو دوبارہ پڑھنا درست ہے۔‘‘

ایسی صورت میں ورثاء کی یہ پریشانی لاحق ہوجاتی ہے کہ اگر جنازہ یہاں کیا جائے تو پاکستان کے احباب و رشتہ دار محروم ہوجاتے ہیں اور اگر وہاں جنازہ پڑھا جائے تویہاں کے قریبی احباب و رشتہ دار محروم ہوتےہیں۔

چونکہ یہ بیان کیا گیا مسئلہ فقہی قیاس معلوم ہوتا ہے۔ امکان غالب یہی ہے کہ اس وقت ایسی صورت نہ پیش آتی ہو۔ لہٰذا آپ سے درخواست ہے کہ وضاحت فرمائیں کہ قرآن و حدیث کی رو سے ایک سے زیادہ نماز جنازہ پڑھی جاسکتی ہے کہ نہیں تا کہ پریشانی دور ہوسکے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ایک میت پر دودفعہ نماز جنازہ پڑھنے کے بارے میں ائمہ کرام کے درمیان اختلاف ہے۔ حضرت امام شافعیؒ حضرت امام احمد بن حنبلؒ اور دوسرے چند اماموں کے نزدیک دوسری مرتبہ نماز جنازہ پڑھنا جائز ہے خاص طور پر ان لوگوں کےلئے جنہوں نے پہلے نماز جنازہ نہیں پڑھی ۔ حضرت امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک ولی کے سوا کسی دوسرے کے لئے دوبارہ نماز جنازہ پڑھنا جائز نہیں ہے۔

جمہور کی دلیل بخاری و مسلم کی وہ حدیث ہے جو حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ ایک قبر کےپاس سے گزرے جس میں رات کے وقت کوئی میت دفن کی گئی تھی تو آپ ﷺ نے فرمایا:

متي دفن هذا قالوا البارحة قال افلا اذیتمونی قالوا دفناه فی ظلمة اللیل فکرهنا ان نوقظک فقام و صففنا خلفه فصلی علیه (فتح الباري ج ۳ کتاب الجنائز باب الاذان بالجنازة ص ۴۵۴ رقم الحدیث ۱۲۴۷)

’’یہ کب دفن کیا گیا ؟ لوگوں نے کہا: رات کو۔تو فرمایا : مجھے تم نے کیوں اطلاع نہیں دی؟ عرض کیا گیا ہم نے رات کے اندھیرے میں اسے دفن کیا اور اس وقت ہم نے آپ کو بیدار کرنامناسب نہ سمجھا تو رسول اللہ اٹھے اور ہم نے آپ کے پیچھے صفیں باندھیں اور آ پ نے نماز پڑھائی۔‘‘

اب اس حدیث سے واضح طورپر جمہور کے مسلک کی تائید ہوتی ہے کہ دفن ہونے کے بعد دوبارہ نماز جنازہ پڑھی گئی اور ظاہر ہے دفن سے پہلے تو بالا ولی جائز ہونی چاہئے۔

کنزالعمال میں حضرت علیؓ کے بارے میں بھی نقل کیا گیا ہے کہ انہوں نے ایک میت پر نماز جنازہ پڑھی حالانکہ اس پر پہلے نماز پڑھی جاچکی تھی۔

احناف مذکورہ حدیث کےبارے میں کہتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے دوبارہ اس لئے نماز پڑھی تھی کہ آپ ولی تھے اور ولی کے لئے دوبارہ پڑھنا جائز ہے۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ اس حدیث میں کوئی ذکر نہیں کہ آپ نے دوبارہ نماز ولی کےلئے خاص کی ہے۔اگر یہ شرط ضروری ہوتی تو نبی کریم ﷺ خود اس کی وضاحت فرمادیتے اور دوسری بات یہ بھی قابل ذکر ہےکہ حضورﷺ کے علاوہ صحابہ کرام نے بھی دوبارہ نماز پڑھی۔ اگر ولی کےلئے خاص ہوتی تو صرف آپ کو یہ پڑھنی چاہئے تھی۔

بہرحال حدیث مذکورہ سے واضح طور پر دوبارہ نماز جنازہ پڑھنے کا ثبوت ملتا ہے اس لئے اس مسئلے میں زیادہ شدت اختیار نہیں کرنی چاہئے۔ اس لئے بھی کہ یہ میت کےلئے مسنون دعاکا ایک طریقہ ہے۔ جو لوگ اس سے محروم رہیں انہیں موقع دینا چاہئے۔ اور اگر ولی پڑھے تو احناف بھی اجازت دیتے ہیں۔ اس لئے اگر میت کا ولی دوبارہ پڑھانا چاہتا ہے یا کسی اور کو اپنی طرف سے وکیل بناکر نماز جنازہ پڑھانے کے لئے کہے تو ایسی صورت میں احناف کے نزدیک بھی جائز ہونی چاہئے۔ اور پھر حدیث کی دلیل آجانے کی بعد فروعی مسائل میں کسی ایک فقہ پر اصرار کرنابھی ضروری نہیں۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ صراط مستقیم

ص245

محدث فتویٰ

تبصرے