سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(191) وضوء میں اعضاء کا تین دفعہ سے زیادہ دھونا

  • 1389
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 2267

سوال

(191) وضوء میں اعضاء کا تین دفعہ سے زیادہ دھونا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

حدیث میں ہے کہ اعضاء وضو کو تین بار سے زائد دھونے والا حد سے گزرنے والا زیادتی کرنے والا اب اگر کوئی امام اعضاء کو چار چھ آٹھ دس مرتبہ دھوئے تو اس کاوضو سنت کے مطابق ہوگا یا خلاف سنت۔ اگر خلاف سنت ہوگا تو اس کی نماز اس وضو سے ہوگی یا نہ اگر نہ ہوئی تو مقتدیوں کی نماز ہوگی یانہ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

جو امام مسجداعضاء کو تین تین بار سے زائد چار، چھ، آٹھ ، دس مرتبہ دھوئے اگر اس کا ایسا کرنا اس وجہ سے ہے کہ وہ شکی اور وسواسی ہے اور محض اپنے اطمینان قلب کے لیے ایسا کرتا ہے تو اس کا وضو درست ہوجائے گا۔ اس کی اور اس کے مقتدیوں کی نماز صحیح ہوگی لیکن ایسے امام کو ہدایت کرنی چاہیےکہ وہ اعضاء وضو کو تین تین بار کامل طور سے دھو کر بس کردے اور تین بار سے زائد ہرگز نہ دھوئے اگر اس ہدایت پرعمل کرے تو خیر ورنہ ایسے امام کو معزول کرکے کسی دوسرے شخص کو امام بنانا چاہیے جو شکی اور وسواسی نہ ہو اور اگر اس امام کا ایسا کرنا اس وجہ سے ہے کہ وہ اعضاء وضو کو تین بار سے زائد دھونے کو جائز و درست سمجھتا ہے تو ایسا شخص بلا شبہ مخالف سنت ظالم و عاصی ہے۔ ایسےشخص کو ہرگز امام نہ بنانا چاہیے۔

«عن عمرو بن شعیب عن ابیه عن جده قال جاء اعرابی الی النبی صلی الله علیه وآله وسلم یسئله عن الوضوء فاراه ثلاثا ثلاثا ثم قال هٰکذا الوضوء فمن زاد علیٰ هٰذا فقد اساء وتعدی و ظلم رواه النسائی و ابن ماجه۔»

’’  ایک دیہاتی نے آنحضرتﷺ کی خدمت میں سوال کیا: آپ نے وضوء کے ہر فعل کو تین مرتبہ کرکے دکھایا اور فرمایا جس نے اس پر زیادتی کی وہ گنہگار اور ظالم ہے۔ روایت کیااس کو نسائی اور ابن ماجہ نے۔‘‘

جامع الترمذی میں ہے:

«وقال احمد و اسحٰق لایزید علی الثلاث الارجل متبلی قال القاری فی المرقاة ای بالجنون لمطنة انه بالزیادة یحتاط لدینه قال ابن حجر ولقد شاهدنا من الموسوسین من یغسل یده فرق المئین وهو مع ذالک یعتقدان حدثه هو الیقین انتهیٰ۔»

یعنی احمد رحمہ اللہ علیہ،اسحٰق فرماتے ہیں کہ تین مرتبہ پر زیادتی صرف مبتلا ہی کرسکتا ہے یعنی مجنوں (سرپھرا) جو احتیاطاً ایسا کرتا ہے ۔ علامہ ابن حجر رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ہم نے وہمیوں کو دیکھا کہ وہ ہاتھ کو سو سے زائد مرتبہ دھونےکے باوجود ناپاک سمجھتے تھے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اہلحدیث

وضو کا بیان، ج1ص275 

محدث فتویٰ

تبصرے