سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(90) نماز قصر کےضروری مسائل کیا ہیں؟

  • 13868
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 3724

سوال

(90) نماز قصر کےضروری مسائل کیا ہیں؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

لیوٹن سے مقبول کاظمی لکھتے ہیں

      تین سوالات ارسال خدمت کررہاہوں امید ہے آپ ان کے جوابات آئندہ شمارے میں شائع فرماکر مخلص کو ممنون ہونے کا موقع مرحمت فرمائیں گے۔

۱۔نماز قصر کے مسائل کیا ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سفر کی حالت میں جو نماز چار رکعت کی بجائے دورکعت پڑھی جاتی ہے اسے نماز قصر کہاجاتاہے۔ قصر کے چند ضروری مسائل درج ذیل ہیں

(الف)بعض کے نزدیک قصر واجب ہے اور بعض نے اسے اختیار قرار دیا ہے یعنی جو چاہے پوری نماز پڑھ لے اور جو چاہے قصر کرلے۔ صحیح بات یہ ہے کہ سفر میں نماز قصر پڑھنا بہتر اور افضل ہے۔

ہاں اگر کوئی کبھی پوری نماز پڑھ لیتا ہے تو اس میں کوئی گناہ نہیں ہے۔ لیکن اللہ نے رخصت کے طور پر ایک ہدیہ دیا ہے’اسے قبول کرنابہرحال بہتر ہے۔سورہ نساء کی یہ آیت قصر کا ثبوت ہے۔

﴿وَإِذا ضَرَ‌بتُم فِى الأَر‌ضِ فَلَيسَ عَلَيكُم جُناحٌ أَن تَقصُر‌وا مِنَ الصَّلو‌ٰةِ... ﴿١٠١﴾... سورة النساء

’’اور جب تم سفر کے لئےزمین پر نکلو تو قصر کرنےمیں کوئی حرج نہیں۔‘‘

اب ان الفاظ سےبھی قصر کا لزوم ی وجوب ثابت نہیں ہوتا۔ (النساء:۱۰۱)

(ب)قصر کتنے میل یا کلومیٹر کےسفر پر کیا جاسکتا ہے حدیث میں اس کاکوئی باقاعدہ تعین نہیں۔ ۹ میل سےلے کر ۴۸ میل تک کے اقوال منقول ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عام عرف میں سفر کی اصطلاحات میں تبدیلی ہوتی رہتی ہے اس لئے شارع علیہ السلام نے اس کی  خاص حد مقرر نہیں کیا مثلاً آج کے دور میں بسا اوقات انسان ایک بڑے شہر کے اندر یوں چلتے پھرتے ۲۰۔۲۵ میل کا سفر طے کر لیتا ہے لیکن وہ شرعی اصطلاح میں مسافر نہیں ہوتا ۔ اسی طرح ایک دیہات یا چھوٹے شہر سے ۹۔۱۰ میل کا سفر کرکےدوسری جگہ جانے والا بھی  اپنے آپ کو مسافر خیال کرتا ہے تو دراصل یہ عرف اور احساس کا مسئلہ ہے ۔ ہر مسلمان خود فیصلہ کرے کہ وہ کب اور کس صورت میں اپنے آپ کو مسافر خیال کرتا ہے۔ جیسا کہ بیماری کی صورت میں نماز بیٹھ کر پڑھنے کی اجازت ہے لیکن شارع ؑ نے یہاں بھی بیماری  کی قسموں یا نماز کی حد کی تعین نہیں کیا کہ کون سی بیماری ہو یا کتنا بخار ہو تو بیٹھ کر پڑھنے کی اجازت ہے ورنہ نہیں۔ بلکہ یہ بھی ہر انسان اپنے بارے میں خود فیصلہ کرے گا کہ اس وقت اس کی کیفیت اور احساس کیا ہے۔ یہی صورت سفر کے بارے میں ہے۔ اگر ۹ میل سفر میں کوئی شخص ذہنی طور پر اپنے آپ کو مسافر خیال کرتا ہے تو اسے قصر کی اجازت ہے اور اگر کوئی شخص ۳۰ میل میں بھی  اپنے آپ کو مسافر خیال نہیں کرتا تو اسے قصر نہیں کرنا چاہئے۔ بہرحال قرآن وسنت میں اس کا واضح حد مقرر نہیں ہے۔

(ج)ظہر’عصر اور عشاء کی نماز قصر ہوگی ’فجر اور مغرب کی قصر نہیں ہے۔ سفر میں سنتیں معاف ہیں عشاء کے وتر اور فجر کی سنتیں پڑھ لے تو بہتر ہے بعض لوگ فرض تو قصر کرلیتے ہیں مگر سنتیں اور نوافل کی خوب پابندی کرتےہیں ۔ اس سے بظاہر قصر کی غرض و غایت باقی نہیں رہتی ۔ کیونکہ تخفیف اور رعایت جو دی گئی ہے اس سے پوری طرح فائدہ نہیں اٹھایا گیا۔

(د)قصر کی مدت کے بارےمیں صحیح ترین روایت صحیح بخاری کی ہے۔

حضرت عبداللہ بن عباس ؓ فرماتےہیں کہ جب فتح مکہ ہوئی تو آپﷺ نے وہاں ۱۹ دن قیام کیا اور آپ دو رکعت نماز یعنی قصر پڑھتے رہے۔

لہٰذا اگر ٹھہرنے کی مدت معلوم ہے تو ۱۹ دن تک قصر کرسکتا ہے اس سے اوپر ہوتو پوری نماز پڑھے گا اور اگر قیام کی مدت معلوم نہ ہو اور شک میں ہو کہ کب تک ٹھہرے گا تو پھر جب تک ٹھہرے قصر کرسکتا ہے

(ر)سفر میں نمازوں کوجمع کرکے پڑھنا صحیح حدیث سےثابت ہے۔ ظہر و عصر اور مغرب’عشاء ایک ساتھ پڑھی جاسکتی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ:

’’رسول اکرمﷺ جب سفر پر روانہ ہوتے تو بعض اوقات ظہر وعصر گھر پر ملا کر پڑھ لیتے اور اگر ظہر کا وقت نہ ہوتا تو پھر آپ چل پڑتے اور راستے میں جب عصر کا وقت شروع ہوجاتا تو دونوں کو ملا کر پڑھ لیتے۔ اس طرح اگر سورج گھر پر غروب ہوجاتا تو مغرب کے ساتھ عشاء بھی پڑھ لیتے اور اگر سورج گھر سے روانہ ہونے سے پہلے غروب نہ ہوتا تو پھر آپ عشاء کے وقت دونوں کو ایک ساتھ پڑھ لیتے۔‘‘

یہ وہ آسانیاں ہیں جو اس امت کےلئے عطاکی گئی ہیں۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ صراط مستقیم

ص222

محدث فتویٰ

تبصرے