سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(79) نماز کے لئے بلانا کاروباری اوقات میں آجر کی اجازت؟

  • 13853
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 833

سوال

(79) نماز کے لئے بلانا کاروباری اوقات میں آجر کی اجازت؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

لند ن سے محمد سعید پوچھتے ہیں

  ۱۔ جب کوئی شخص نماز ادا کرنے جائے تو اسے دوسروں کو بلاوا دینا اس کے فرائض میں آتا ہے یا نہیں ؟ اگر آتا ہے تو کتنی بار؟

۲۔ کیا کاروباری اوقات میں نماز اداکرنے کے لئے اپنے آجر کی اجازت لینا ضروری ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

(۱)نماز کا بلاوا دینا دو قسم کا ہے ایک بطور اطلاع ساتھیوں کو بتانا کہ نماز کا وقت ہوگیا ہے۔ یہ تو ہر وقت اور ہمیشہ کرناچاہئے اور ایسا بلاوا نیکی کا کام ہے تا کہ لوگ بروقت نما ز ادا کرسکیں۔ خاص کر ایسے ملک یا جگہ میں جہاں اذان یا تو ہوتی نہیں؟ اگر ہوتی ہے تو اس کی آواز نہیں سنائی دیتی۔ اس قسم کے بلاوے سے بہتر اذان ہے۔ بشرطیکہ وہاں اذان میں کوئی رکاوٹ نہیں۔ ایسا دفتر یا گھر جہاں ماشاءاللہ رہنے والے یا کام کرنے والے مسلمان ہیں تو وہاں اذان کا اہتمام کرنا چاہئے اور اذان ہی کافی ہوگی۔ کسی دوسرے بلاوے کی ضرورت نہیں۔

دوسری قسم یہ کہ بلاوے سےمراد نماز کی ترغیب یا تلقین ہے ۔ ہر مسلمان کا فرض ہے کہ اپنے دوسرے مسلمان بھائیوں کو نماز کی اہمیت سے آگاہ کرے اور انہیں پڑھنے کی ترغیب دے۔ لیکن یہ صرف نماز پڑھنے کے وقت ضروری نہیں بلکہ اسے کے علاوہ کسی مناسب وقت میں تلقین کرنی چاہئے ہاں اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ اس وقت نماز کی طرف بلانے یا رغبت دلانے سے کوئی بھائی نمازی بن سکتا ہے تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں کہ نماز کے وقت اسے یہ فریضہ یاد دلایا جائے۔ لیکن یہ حالات پر موقوف ہے کہ کس قسم کے لوگوں سے آپ کو واسطہ ہے اگر لڑائی جھگڑے یا فتنے فساد کا خطرہ ہے تو اس صورت میں اتمام حجت کے طور پر ایک دو بار کوشش کرکے پھر اسے سوچنے کا موقع اور مہلت دینی چاہئے۔

(۳)آجر یا مالک کی اجازت بنیادی طور پر ضروری ہے لیکن اگر آجر آپ کو نماز کی اجازت نہیں دیتا تو پھر اس مسئلے میں اس کا حکم ماننا ضروری نہیں کیونکہ:

’’لا طاعة لمخلوق فی معصیة الخالق‘‘ (مشکوٰة للالبانی کتاب الامارة القضاء ص ۱۰۹۳ رقم الحدیث ۳۶۹۶)

’’اللہ کی نافرمانی کرکے مخلوق کی بات ماننا درست نہیں۔‘‘

اس لئے عبادت سے اگر کوئی روکے اگرچہ والدین ہی کیوں نہ ہوں تو اس بارے میں ان کی بات ٹھکرائی جاسکتی ہے۔ویسے مسلمان کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ ملازمت کرنے سے پہلے ان باتوں کی وضاحت کردے کہ وہ کام کے اوقات میں اپنے دینی فرائض پوری طرح ادا کرے گا۔ بہرحال چوری چھپے نماز پڑھنے کی بجائے اپنے آجر کو اطلاع دینی چاہئے۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ صراط مستقیم

ص203

محدث فتویٰ

تبصرے