سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(78) نماز کے بعد بلند آواز سے ذکر کا حکم؟

  • 13852
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 5745

سوال

(78) نماز کے بعد بلند آواز سے ذکر کا حکم؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

لندن سے ایم صدیق لکھتے ہیں فرض نماز کے بعدکون ساوظیفہ اور ذکر ہے جو رسول اکرمﷺ سے ثابت ہے؟ اس وقت یہاں بعض مسجدوں میں جو نماز کے بعد بلند آواز سے کلمہ طیبہ پرھنے یادرود سلام پڑھنے کا سلسلہ ہے اس کی شرعی حیثیت پر بھی قرآن وحدیث کی روشنی میں وضاحت کریں۔ اس میں بہتوں کا بھلا ہوگا۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

نماز اسلام کا ایک ہم بنیادی رکن ہے جس کی اہمیت  اور فضیلت کے بارے میں قرآن وحدیث میں واضح دلائل و حکام موجود ہیں۔ اس اہل عبادت کے فوائد اور حکمتوں  پر بھی امت کے علماء بہت کچھ لکھ چکے ہیں۔ چونکہ نماز بندے اور خالق کے تعلق کو مضبوط کرنے کا سب سے اہم ذریعہ ہے اس لئے نماز کے اندر اور نماز سے فارغ ہونے کے بعد اس تعلق  کو تازہ رکھنے کے لئے نبی کریمﷺ نے مختلف اذکار اور دعائیں بتائی ہیں اور ان مسنون دعاؤں کے علاوہ اپنی طرف سے اجتماعی ذکر یا دعا کا کوئی طریقہ رائج کرنا جائزنہ ہوگا۔

ہم ذیل میں اس بارے میں صحیح احادیث سے ثابت چند اذکار نقل کرتے ہیں

(۱)حضرت عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کی نماز کے اختتام کو اللہ اکبر کے ذریعہ پہچانتا (بخاری شریف) یعنی آپ نماز کے بعد اللہ اکبر بلند آواز سے کہتے۔

(۲)حضرت ثوبانؓ سے روایت ہے کہ بنی کریم ﷺ جب نماز سے فارغ ہوکر ہماری طرف توجہ فرماتے تو تین مرتبہ استغفر اللہ پڑھتے اور پھر کہتے:

( اللهم انت السلام و منک السلام تبارکت یا ذالجلال والاکرام) (مسلم مترجم  ج۱ کتاب المساجد باب استحباب الذکر بعد الصلاۃ و بیان صفتہ ص ۱۴۹ ترمذی ج ۱ باب مایقول اذا مسلم ص ۹۴ رقم الحدیث ۲۹۸/۲۴۳)

(۳)حضرت عائشہؓ روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نماز کے بعد صرف اتنی دیر بیٹھتے جتنی دیر میں یہ الفاظ پڑھتے:

اللهم انت السلام و منک السلام تبارکت یا ذالجلال والاکرام (مسلم مترجم ج۱ کتاب المساجد باب استحباب الذکر بعد الصلاة ص ۱۴۹)

(۴)حضرت ام سلمہؓ فرماتی ہیں کہ صبح کی نماز میں سلام پھیرنے کے بعد آپﷺ فرماتے: اللھم انی اسئلک علما نافعا ورزقا طیبا وعملا متقبلاً۔

(مسند احمد’ابن ماجہ)

(۵)حضرت مغیرہ بن شعبہؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ پر فرض نماز کے بعد یہ کلمات پڑھتے۔

لااله الا الله وحده لا شریک له له الملک وله الحمد وهو علی کل شئی قدیر اللهم لا مانع لما اعطیت ولا معطي لمامنعت ولا ینفع ذالجد منک الجد (مسلم مترجم ج ۱ کتاب المساجد باب استحباب الذکر بعد الصلاة و بیان صفة ص ۱۴۹ ترمذي ج ۱ باب ما یقول اذا مسلم ص ۹۴ رقم الحدیث ۲۹۸/۲۴۳۔)

(۶)حضرت عبد اللہ بن زبیر ؓ سے مروی ہے کہ رسول اکرمﷺ جب سلام پھیرتے تو بلند آواز سے یہ الفاظ پڑھتے:

لا اله الا الله وحده لا شریک له له الملک وله الحمد وهو علی کل شئی قدیر ولة حول ولا قوة الا بالله لا اله الا الله ولا نعبد الا ایاه له النعمة وله الفضل وله الثناء الحسن لا اله الا الله مخلصین له الدین ولو کره لکافرون ۔(مسلم مترجم ج۱ کتاب المساجد باب استحباب الذکر بعد الصلاة ص ۱۴۹)

(۷)حضرت کعب بن عجرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا فرض نماز کے فوراً بعد کچھ الفاظ ایسے ہیں کہ انہیں کہنے والا  کبھی نامراد نہیں ہوگا اور وہ ہیں ۳۳ مرتبہ سبحان اللہ ۔۳۳ مرتبہ الحمدللہ اور ۳۴ مرتبہ اللہ اکبر (مسلم شریف)

(۸)حضرت ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے ہر فرض نماز کے بعد ۳۳ مرتبہ سبحان اللہ کہا اور ۳۳ مرتبہ الحمدللہ اور ۳۴ مرتبہ اللہ اکبر اور آخر میں کہا لاالہ اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شئی قدیر تو اس شخص کے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں اگرچہ وہ سمندر کے جھاگ کے برابر ہی کیوں نہ ہوں۔ (صحیح مسلم)

 (۹)حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے کہ بے شک رسول اکرم ﷺ نماز کے بعد ان کلمات کے ساتھ پناہ طلب کرتے۔ اللهم انی اعوذبک من لبخل و اعوذبک من الجبن و اعوذبک من  ان ارد الی ارزل العمر و اعوذبک من فتنة الدنیا واعوذبک من عذاب القبر۔ (صحیح بخاری )

احادیث کی معتبر کتابوں سے یہ کچھ روایات ہم نے نقل کی ہیں جن میں یہ مسنون اذکار ہیں۔ ان احادیث پر غوروفکر کے بعد درج ذیل امور واضح ہوتے ہیں:

اول: صحابہ کرامؓ نے اپنے اپنے مشاہدات کے مطابق نبی کریمﷺ کی نمازوں کے بعد کا معمولات کا ذکر کیا ہے اور ان سے یہی ثابت ہوتاہے کہ آپ مختلف کلمات نمازوں کے بعد پڑھا کرتے تھے اور جس صحابی نے جو کلمات سنے وہ نقل کردیئے۔

دوم:  کسی صحیح حدیث میں یہ نہیں آتا کہ آنحضرت ﷺ نے صحابہ کرامؓ کو اجتماعی طور پر بلند آواز سے کلمہ طیبہ کا ورد سکھایا ہو۔ کیوں کہ ہم نے اکثر وہ احادیث پیش کردی ہیں جن میں نماز کے بعد اذکار کا بیان ہے۔ اس طرح نماز کے بعد صلوٰۃ وسلام کا بھی کسی حدیث میں ذکر نہیں نہ کبھی آپ نے صحابہؓ کو بلند آواز سے یا آہستہ آواز کے ساتھ کھڑے ہو کے یا بیٹھ کر نماز کے بعد درودو سلام پڑھنے کا حکم دیا اور نہ ہی صحابہ کرام نے نمازوں کے بعد یہ عمل کیا۔

سوم:    مسئلہ یہ نہیں کہ کلمہ طیبہ یا درود شریف پڑھنے سے کوئی منع کرتا ہے یا روکتا ہے ۔ کوئی مسلمان بھلا یہ تصور بھی کرسکتا ہے کہ کلمہ یا درود کا انکار کرے اور لوگوں کو ان کے پڑھنے سے روکے ایسے شخص کے کفر میں کیا شبہ ہے جو کلمہ طیبہ پڑھنے سے انکار کرے’ یانبی کریمﷺ پر درود سلام سےمنع کرے بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے کس موقع پر کون سے الفاظ یا کلمات پرھنے کے لئے سکھائے ہیں۔

خلاصہ کلام:    اس لئے ہم یہ کہتے ہیں کہ رسول اکرمﷺ نے نماز کے بعد جو اذکار بتائے ہیں ان میں نہ کلمہ طیبہ کا ذکر ہے اور نہ ہی درود سلام کا اور کسی شخص کو یہ حق نہیں کہ وہ نبی کریم ﷺ کے طریقے کو چھوڑ کر اپنی طرف سے کوئی طریقہ رائج کرے۔ اس سے بڑا دشمن اسلام اور گستاخ رسول اور کون ہوسکتا ہے جو یہ کہے کہ حضورﷺنے تو یہاں اس طرح چیزیں  پڑھنے کے لئے نہیں کہا مگر میری مرضی اور خواہش یہ ہے کہ میں فلاں چیز پڑھوں۔ اس میں کیا حرج ہے؟ اس میں سب سے بڑا حرج یہی ہے کہ اس نے آنحضرت ﷺ کےفرمان کا احترام نہیں کیا۔

اس کی مثال بالکل ایسے ہے جیسے کوئی شخص کہے کہ نماز میں قیام کی حالت میں سورہ فاتحہ پڑھنے کی بجائے وہ درود پڑھنا پسند کرتا ہے اور جب تشہد میں بیٹھے گا تو اس وقت فاتحہ پڑھے گا تو ایسے شخص کی نہ ہی نماز ہوگی اور نہ اسے کوئی محب رسول ﷺ یا عاشق رسو لﷺ تسلیم کرے گا کیونکہ اس نے اپنی طرف سے ایک طریقہ ایجاد کیا اور جو چیز جس  جگہ نبی کریمﷺ نے پڑھنے کے لئے کہی تھی اس میں اس نے اپنی طرف سے تبدیلی کی۔

لہٰذا مروجہ طریقہ صلاۃ و سلام کسی حدیث سے ثابت نہیں اور نہ ہی اونچی آواز سے مل کر کلمہ طیبہ اس طرح پڑھنے کا کوئی ثبوت ہے جس طرح آج کل کی بعض مسجدوں میں رواج ہے۔

بعض احادیث میں نماز کے بعد لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ کے الفاظ آئے ہیں جیسا کہ مسلم شریف کی حدیث کے حوالے سے ہم نے نقل کئے ہیں ممکن ہے بعض حضرات اس سے یہ دلیل پکڑیں  کہ آج کل بعض مساجد میں جو بلند آواز سے کلمہ پڑھا جاتا ہے اس کے الفاظ بھی تو یہی ہیں لہٰذا نماز کے بعد لا الہ الا اللہ پڑھنے کاثبوت مل گیا۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ اس حدیث میں صرف لا الہ الہ اللہ کے الفاظ نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء اور اس کی وحدانیت و یکتائی کے مکمل اور جامع کلمات ہیں جب کہ آج کل کے اہل بدعت  حضرات کو نہ تو یہ وظیفہ آتا ہے اور نہ ہی اسے پڑھتے ہیں’بلکہ ان کے ہاں اکثر رواج تو یہ ہے کہ وہ صرف لا الہ الا اللہ ہی پڑھتے رہتے ہیں اور پھر ایک آدھ بار محمد رسول اللہ بھی کہہ دیتے ہیں جب کہ یہ طریق کار تو بالکل انوکھا ہے۔اگر یہ حضرات وہ تمام وظائف و کلمات جو ہم نے اوپر ذکر کئے ہیں مسنون طریقے سے پڑھیں تو آخر کیا اعتراض ہو سکتا ہے؟ لیکن ساری مسنون دعائیں اور ورد چھوڑ کر کلمے کے ایک حصہ اور پھر کھڑے ہو کے درود پڑھنا بلکہ اس میں اردوو شعروں کی آمیزش کرکے اسے گا لینا ہرگز پرگز سنت قرار نہیں دیا جا سکتا۔

 ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ صراط مستقیم

ص199

محدث فتویٰ

تبصرے